دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹی ایم اے دیر بالا۔ چوری اور سینہ زوری
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
پختونخوا بیوروکریسی کی غضب کرپشن کی عجب کہانی ۔ہم ایک ایسے دیس کے باسی ہیں جہاں کے اخلاقیات ساری دنیا اور سارے مذاہب سے نرالے ہیں۔ یہاں چور کو شریف اور شریف کو چور سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ہر قدم پر ایک شیطان ملے گا اور ہر شیطان کے لاکھوں پجاری بھی۔ یہاں بےایمان ایماندار اعظم اور ایماندا رسوا ہوتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اخلاقی انحطاط کی اتاہ گہرائیوں میں غرق ہوچکے ہیں۔
آئیئے آج آپ کو ایک ایسی ہی ڈکیتی کا بپتا سناتے ہیں جس میں سارے کوتوال ہی ڈاکوؤں بنے ہوئے ہیں اور مال برابر تمام سرداروں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ ڈکیتی اور چوری کی یہ داستانیں ساوتھ انڈیا کے فلموں کے مناظر پیش کرتےہیں جسمیں ڈان ہمیشہ گھر کا بھیدی نکلتا ہے اور دھڑلے سے لوٹ مار کرتا ہے۔ یہ صورتحال صوبہ پختونخوا کے ہر ادارے ، محکمے اور وزارت کی۔ راقم الحروف اب باقاعدگی کے ساتھ ریاستی ، وزارتی اور محکماجاتی ڈکیتوں پر لکھتا رہے گا مگر آج جس ڈکیتی کو ہم نے منتخب کیا ہے وہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن دیر بالا میں پڑ چکی ہے اور ڈکیت گروہ کے سرغنہ یا جدید زبان میں ڈان کا نام عرفان اللہ ہے جو چہرے پر اکاونٹنٹ کا نقاب چڑھایا ہوا ہے۔ عرفان اللہ کے کئی سکہ بند ڈان اور سردار ہیں جنکے نام اور عہدے الگ الگ ہیں۔ ٹی ایم او اپر دیر سے سرداروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہوئے پشاور پہنچتا ہے جہاں دو چھوٹے سردار، ایک درمیانہ سردار اور ایک بڑا سردار دھندے کی نگرانی کرتے ہیں۔ دو چھوٹے سرداروں میں سیکریٹری بلدیات اور سیکریٹری لوکل کونسل بورڈ شامل ہیں جبکہ درمیانے سردار کو وزیر بلدیات کہتے ہیں۔ ان سرداروں کے سرغنہ کو وزیر اعلی خیبر پختونخوا کہتے ہیں۔ یہ تمام سردار بدلتے رہتے ہیں مگر دھندہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے ، اس ایمان اور یقین کے ساتھ کہ
" دھندے سے بڑھ کر کوئی دھرم نہیں ہے"
ان ڈکیتوں کے ساتھی ڈکیت بھی ہوتے ہیں جن میں بھی مال برابر بانٹا جاتا ہے۔ بٹوارے کے ان شراکت داروں کے ڈیرے کو
"فنانس ڈیپارٹمنٹ " کہتے ہیں جہاں چھوٹے سردار کو سیکریٹری فنانس کہا جاتا ہے جبکہ درمیانے سردار کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے نام سے جانا جاتا ہے اور بڑے سردار چیف سیکریٹری کے نام سے معروف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لاڈلا سردار اور ایک سردار اعلی ہوتا ہے۔ لاڈلے سردار کو فنانس منسٹر اور سردار اعلی کو وزیر اعلی کہتے ہیں۔
ان ڈکیتوں کی معاونت جس بڑے گھر میں ہوتی ہے اسے نظام انصاف کا گھروندہ کہا جاتا ہے جہاں دلیل اندھا اور شعور بہرہ ہوتا ہے۔
یہ ایسی عجیب ڈکیتی اور باریک واردات ہوتی ہے کہ جس میں لوٹ کے مال کو " کمیشن " کا نام دیا جاتا ہے اور کمیشن کو حلال کمائی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس ڈکیتی میں لٹنے والا بخوشی لوٹ کا مال ان چور اور ڈاکووں میں خود تقسیم کرتا ہے اور اس تقسیم کنندہ کو عرف عام میں " ٹھیکدار " کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ڈاکہ اگر چہ ٹھیکدار کے جیب پر پڑتا ہے لیکن ٹھیکداری جیب میں پڑا ہوا مال قوم کا ہوتا ہے۔ یہ ڈاکہ زلزلے کے مانند ہوتا ہے جو ہوتا تو شدید ہے مگر نظر نہیں آتا اور اس کے ثبوت پھر ہم کھنڈرات کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس سرکاری ڈکیتی کے نشانیاں ہمیں پھر تعمیراتی کاموں میں نظر آتی ہیں بھلے وہ سڑکیں ہو کہ ہسپتال یا دیگر ترقیاتی منصوبے۔ یہ وارداتیں ہی دراصل حکومت کہلاتی ہے اور جہاں جہاں یہ وارداتیں ہوتی ہیں اسے ریاستی بستی میں قائم سرکاری ادارے کہتے ہیں۔ آج اس ڈکیت راج میں سے ہم دیر بالا کے ایک اوطاق ٹی ایم اے اپر دیر کی ایک داستان آپ کو سناتے ہیں۔
دیر بالا کے رہائشی ارشد شاہین ایک وطن پرست ، باضمیر اور مومن شخص ہیں جنہوں نے عملی زندگی کی شروعات ایک صحافی کی حیثیت سے کی۔ ان کی خبریں مصدقہ ، درست ، بروقت اور انقلابی ہوا کرتی تھیں۔ وہ زبردست لکھاری تھے اور بہت تھوڑے عرصے میں ایک معروف کالم نگار کی عزت و شہرت حاصل کی۔ ارشد شاہین ہر دلعزیز انسان تھے اور اپر دیر پریس کلب کے منتخب چیئرمین بھی رہے۔ صحافت میں جب ذلالت عروج کو پہنچی تو ارشد شاہین بھی بہت سارے شریف صحافیوں کی طرح ہمت ہار گئے اور صحافت چھوڑ کر ایک کنسٹرکشن کمپنی کھول دی۔ یوں صحافی ارشد شاہین ٹھیکدار بن گئے اور اپنی کمپنی شاہین کنسٹرکشن کمپنی کو خوب چلایا۔ کل کے صحافی ارشد شاہین آج کے شاہین کنسٹرکشن کمپنی کے چیئرمین اور سی ای او ہیں۔ شاہین کنسٹرکشن کمپنی نے ٹی اہم اے اپر دیر کے ایک ہراجیکٹ کا کنٹریکٹ میرٹ پر حاصل کیا تھا۔ شاہین کنسٹرکشن کمپنی نے سال 2018 میں اسپالٹ روڈ کس دیر ٹاون کا کام لیا جو تقریبا 3کروڑ پچاس لاکھ کے لگ بھگ بجٹ کا تھا اور اسے بروقت اور بخوبی مکمل کیا۔ کام کے اختتام پر ارشد شاہین نے Uplift and development of hill stations in Malakand division اے ڈی پی اے سے پختگی،بلیک ٹاپئنگ کے مذکورہ سکیمز کے تکمیل کےسڑیفیکیٹس حاصل کرکے فائنل بل کے ساتھ لف کر دیئے اور ضروری کاروائی کے بعد شاہین کنسٹرکشن کمپنی کو ادائیگی کے لیئے تین چیکس بھی جاری کر دیئے گئے۔ چیکس کے اجرا سے قبل متعلقہ کمپنی کو کہا گیا کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ جاکر اس مقصد کے لیئے فنڈز ریلیز کروا دیں۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ میں بلز کے کل اماونٹ کے مطابق 12 فیصد ادائیگی کر دی گئی جو کہ ایک سٹینڈرڈ پروسیجر ہے اور ہر ٹھیکدار فنانس ڈیپارٹمنٹ میں ادائیگی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ فنانس میں 12 فیصد ادائیگی سے قبل مذکورہ ٹھیکدار 12 فیصد ادائیگی ٹی ایم اے اپر دیر میں کرچکا تھا جو کہ ایک معیاری اور سرکاری طریقہ کار ہے۔ یوں ہر بل اور ہر کام کے عوض 24 فیصد ادائیگی سرکاری حرامخوروں کو کی جاتی ہے۔
ان ادائیگیوں کے بعد فنانس ڈیپارٹمنٹ نے شاہین کنسٹرکشن کمپنی کے بل کی رقم تقریبا 42 لاکھ ٹی ایم اے اپر دیر کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی اور ٹی ایم اے اپر دیر نے شاہین کنسٹرکشن کمپنی کے نام کراس چیک جاری کیئے جو اکاونٹ میں مطلوبہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے کیش نہیں ہوئے کیونکہ ڈکیت عرفان اکاؤنٹنٹ نے صوبائی محکمہ خزانہ سے جاری شدہ 42 لاکھ روپے ٹی ایم اے دیر بالا کے سرکاری اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرکے بوگس طریقے سے نکال کر اپنے جیب میں ڈال دیئے تھے۔ انکوائری پر معلوم ہوا کہ ٹی ایم اے اپر دیر کے اکاونٹ میں صرف ایک لاکھ روپے موجود ہیں۔ مزید معلومات پر پتہ چلا کہ شاہین کنسٹرکشن کمپنی کی 35 لاکھ کی پے مئنٹ کے چیکس کے ساتھ ساتھ ٹی ایم اے اپر دیر کے اکاونٹنٹ عرفان اللہ تمام ٹھیکداروں کے کروڑوں روپے کے کال ڈیپازٹس اور سیکورٹی بھی نکال کر ہڑپ کر چکا ہے۔
اس سے بڑی ڈکیتی اور کیا ہوگی کہ ایک سرکاری اہلکار نے سرکاری رقم غیر مجاز طریقے سے نکال کر ذاتی جیب میں ڈال دی؟
کیا اس سے بڑی دیدہ دلیری کوئی اور ہوسکتی ہے؟
اور کیا بغیر افسران بالا کے آشیرباد باد کے ٹی ایم اے اپر دیر کا ایک معمولی 14 سکیل کا اکاونٹنٹ اتنا بڑا جرم کرسکتا تھا؟
جواب نفی میں ہے۔ یہ رقم برابر تمام چوروں میں تقسیم ہوئی ہے کیونکہ جب بات پھیل گئی تو اکاونٹنٹ عرفان اللہ کا محض تبادلہ ہوا اور جب شور زیادہ مچ گیا تو اکاونٹنٹ عرفان اللہ کو صرف او ایس ڈی بنا کر لوکل کونسل بورڈ ٹرانسفر کر دیا گیا۔ سابقہ اکاؤنٹنٹ عرفان اللہ نے تا دم تحریر ٹی ایم اے دیر بالا کا اکاؤنٹ اور سرکاری ریکارڈ نئے تعینات ہونے والے اکاونٹنٹ کو حوالے نہیں کیا ہے۔ اکاونٹنٹ عرفان اللہ کے سر پر افسرانہ سرپرستی کے دست شفقت کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 14 سکیل میں تعینات ٹی ایم اے اپر دیر کے اکاونٹنٹ عرفان اللہ کے پاس تحصیل افیسر فنانس کا اضافی چارج بھی تھا۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹی ایم اے اپر دیر کے پاس جتنے ٹھیکداروں نے بھی مختلف پراجیکٹس کے لیئے بطور زر ضمانت کال ڈیپازٹس جمع کیئے تھے جو تقریبا 10 کروڑ روپے کے تھے وہ سب کے سب اکاونٹنٹ عرفان اللہ کیش کر کے کروڑو پتی بن چکا ہے ۔ عرفاں اللہ نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ڈکیتی میں اپنے حصے کی رقم کی محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہوئے ایسکویٹرز اور تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والی دیگر ہلکی اور بھاری مشینری لی اور ٹھیکداروں کو پابند کروایا کہ اس کی مشنیری کرایہ پر لے۔ یوں عرفان اللہ نے کروڑوں کی جائدادیں بنالیں۔ عرفان اللہ گریڈ 14 کے اکاونٹنٹ نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ٹی ایم اے اپر دیر کے اکاونٹ میں پڑے ہوئے ٹھیکداروں کے کروڑوں روپےکی رقومات بھی نکالی۔ تمام ٹھیکدار تب سے اب تک در بدر پھر رہے ہیں کہ ان کی شنوائی ہو مگر اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
ہے کوئی ایسا مرد کا بچہ ان ریاستی " بنارسی ٹھگوں " میں کہ جس کا تن اور من قانون ، انسانیت ، اخلاق ، اسلام اور حلال کے کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو اور ان چوروں کے چہروں سے نقاب کھینچ کر انہیں برہنہ کر دے؟
واپس کریں