دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریت کے گھروندے اور فوجی آپریشنز
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
جب بھی پاکستان میں کسی فوجی آپریشن کا غلغلہ اٹھتا ہے تو مجھے اپنے عزیز استاد پروفیسر کرم الہی صاحب بےتحاشا یاد آجائے ہیں۔ پروفیسر کرم الہی صاحب پشاور یونیورسٹی میں ہمارے تین شعبہ جات سوشل ورک، سوشیالوجی اور اینتھروپالوجی کے چیئرمین ہوا کرتے تھے جو اس زمانے میں ایک ہی ڈسپلن ہوا کرتا تھا۔ اب یہ تینوں شعبے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ ہیں۔
پروفیسر صاحب ایک دن کلاس میں بتا رہے تھے کہ ہزارہ ڈویژن میں ہمارا گاوں بٹگرام میں پہاڑی اونچائی پر واقع تھا اور نیچے ایک بہت بڑا برساتی دریا تھا جو عام دنوں میں خشک رہا کرتا تھا۔
گاوں کے تمام بچے صبح سویرے کھیلنے کے لیئے خشک برساتی دریا میں اترتے تھے اور بھوک پیاس سے بےنیاز ہو کر شام تک کھیلتے رہتے تھے۔ کھیل کوئی متنوع قسم کا مشق نہیں ہوا کرتا تھا بس تمام بچے مسلسل ریت کے گھروندے بناتے رہتے تھے۔ سرشام گاوں کے جس بزرگ کو بھی خیال آجانا تھا کہ بچوں کو اب گھروں کو لوٹنا چاہیئے تو وہ اوپر سے زور دار آواز لگاتا تھا " سمیٹو " اور ہم بچے میکانکی انداز میں اٹھ کر نعرہ لگاتے تھے " جلدی کرو " اور تمام دن کے اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے ریت کے گھروندے پیروں تلے ہموار کرتے ہوئے ہم رنگ زمین بنا دیتے تھے اور گھروں کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے۔
پاکستانی ریاست یا باالفاظ دیگر پاکستانی اشرافیہ سطح زمین سے اونچائی پر رہائش پزیر وہ مخلوق ہے کہ جنہوں نے خشک ندی نالوں میں مخصوص جھتوں کو طالبانی گھروندے بنانے کے لیئے آزاد رکھ چھوڑا ہوا ہے۔
جب جب بھی ہمالیہ کی چوٹی یا لبرٹی مجسمے سے آواز اٹھتی ہے کہ " ختم شد " تو اوپر سے نیچے والوں کو پکارا جاتا ہے " سمیٹو "۔ مگر یہاں ایک فرق ضرور ہے کہ ریٹ کے گھروندوں کو ڈھانپنے کے لیئے گاوں کی آبادی کو اس پر ڈھا جاتا ہے۔ نقل مکانی ہوتی ہے۔ اموات واقع ہوتے ہیں۔ گیت سنگسار کیئے جاتے ہیں۔
زبانیں کاٹ دی جاتی ہیں اور اجتماعی قتال کو شہادتوں کا نام دے کر فاتحہ پڑھا جاتا ہے۔ کھیل رکتا نہیں بلکہ نئے تازہ دم دستے پھر سے نئے گھروندے بنانے کے لیئے خشک ندی نالوں میں اتارے جاتے ہیں۔ سالی مہنگائی بھی اب عالمی مسئلہ ہے اور مہذب دنیا کی شہریت پر ڈالرز بھی اب زیادہ خرچتے ہیں۔
واپس کریں