دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
منشیات فروشوں کے خلاف نمائشی کاروائیاں
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
جن لوگوں کے پاس انکے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے ہوتے ہیں اور انکے ہاں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے یقینا انکا جمع کیا ہوا دھن کالا ہوتا ہے۔ کالا دھن جمع کرنے کا پرانا طریقہء کار منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار ہوا کرتا تھا۔ آجکل کالا دھن جمع کرنے کے اور کئی معروف کاروبار ہیں جس میں سیاست ، دہشت گردی ، سرکاری ملازمت اور حکومت کے ساتھ مختلف شعبہ جات میں ٹھیکداری اور سپلائی کے دھندے شامل ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بھی ناجائز منافع خوری کے مجرب نسخے ہیں۔۔بہرحال آج بھی منشیات کا دھندہ سرفہرست ہے۔ پہلے وقتوں میں پورے ملک میں انگلیوں پر شمار کیئے جانے والے چند مخصوص لوگ ڈرگز سمگلرز ہوا کرتے تھے۔ آج یہ قومی کاروبار ہے اور ہر دوسرا شخص اس میں گھسا ہوا نظر آتا ہے۔ پرانے وقتوں میں انتہائی تھوڑے لوگ منشیات کے عادی ہوا کرتے تھے مگر آج ہر دوسرا نوجوان اس لت میں پڑا ہوا نظر آتا ہے۔ ماضی میں خواتین کا منشیات کا استعمال انہونی تھا مگر آج لڑکیوں کی کثیر تعداد منشیات کی عادی ہیں ۔ پہلے منشیات میں نہ اتنی زیادہ ورائیٹئز ہوا کرتی تھیں اور نہ ہی پرانے زمانے کے منشیات اتنے زیادہ تباہ کن ہوا کرتے تھے۔ روس کے خلاف افغان جہاد شروع ہوتے ہی منشیات کے کاروبار کے اصول اور طریقہ کار یکسر بدل گئے اور ہمارے ہاں اور عالمی سطح پر بھی اسے سرکاری سرہرستی حاصل ہوگئی۔ حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ہماری اصل اکانومی سے ہماری شیڈو اکانومی کئی گنا زیادہ ہے اور ریاست کو ان دیکھی ڈرگ مافیا چلا رہی ہے۔
ضلع چارسدہ بھی ملک کے دوسرے اضلاع سے مختلف نہیں ہے اور یہاں بھی ڈرگز سمگلرز کا راج ہے۔ چارسدہ کا ڈرگ مافیا سیاست کو سپانسر کر رہی ہے ، صحافت کی آبیاری کر رہی ہے ، سرکار کو پال رہی ہے، مساجد و مدارس کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈال رہی ہے، منشیات کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اور انجمنوں کو ڈرامائی انداز میں بنا اور چلا رہی ہے، اٹھنے والی مخالف آوازوں کو ہمنوا بنا رہی ہے اور جو اٹھنے والی آوازیں سمجھوتا کرنے کے لیئے تیار نہیں ہوتی انہیں خاموشی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کرایا جاتا ہے۔ منشیات کا دھندہ مکمل طور پر سرکاری سرہرستی میں چل رہا ہے اور وہ تمام محکمے جو اسکے سرکوبی کے لیئے قائم کیئے گئے ہیں وہ ڈرگ مافیا کے کارندے بن چکے ہیں۔
ان انتہائی موزوں حالات میں مختلف منشیات اور آئس کا دھندہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ منشیات کا استعمال معاشرے میں خطرے کے نشان سے بہت اوپر جاچکا ہے۔ جرائم قابو سے باہر ہوچکے ہیں اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ضلع چارسدہ میں ابھی تک منشیات فروشوں کے خلاف کوئی بڑی کاروائی نہیں ہوئی ہے اور زیادہ تر معمولی مقدار کے ساتھ آئس کے نشے میں مبتلا نوجوانوں کو گاہے بگاہے گرفتار کیا جاتا ہے جنہیں منشیات فروش بتاتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے۔ عام ملزمان کے خلاف بھی ناجائز طور پر آئس کے پرچے دیئے جاتے ہیں جو منشیات اور خصوصا آئس کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی ضد پر ایک سازش ہے۔ ہر ایس ایچ او کے پاس ذاتی کمتر کوالٹی کی آئس موجود ہوتی ہے جس کو جس کے خلاف مرضی ہو ڈال دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ضلع چارسدہ کے تمام بڑے منشیات فروشوں کی اکثریت کا تعلق ضلع تنگی سے ہے اور تنگی اور شیرپاو کے علاوہ شمالی ہشتنگر ( چارسدہ ) میں آباد ہیں۔ مصدقہ معلومات کے مطابق ان سمگلرز کا کاروبار بیرونی ممالک میں پھیلا ہوا ہے جس میں سرفہرست خلیجی ممالک شامل ہیں۔ یہ اتنے بڑے سطح کے منشیات کے بیوپاری ہیں کہ ان کے بارے میں مقامی کاروبار کا سوچنا بھی ناممکنات میں سے لگتا ہے۔ ایسے تمام سمگلرز کے خلاف نہ تو مرکزی سطح اور نہ ہی صوبائی سطح پر کوئی کاروائی ہوئی ہے اور نہ ہی مقامی طور پر ان پر کبھی ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ ان سمگلرز کے خلاف کبھی بھی کسی بیرونی ملک نے کوئی درخواست دی ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق حکومت پاکستان سے کسی مدد کا تقاضا کیا گیا ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی طور ان سمگلرز کے خلاف کوئی ناقابل تردید شواہد مہیا کیئے گئے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف بڑے چارجز پر مبنی ایف آئی آرز کاٹے گئے ہیں۔
جس طرح ان کے بنگلوں، گاڑیوں اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہوئے عوام الناس انہیں منشیات کے تاجر گردانتے ہیں اسی طرح ملکی، صوبائی ادارے اور ضلعی پولیس بھی انکے خلاف زبانی کلامی اور ہوائی باتیں اور کاروائیاں کرتی ہیں۔ حال ہی میں چارسدہ میں تعینات ہونے والے نوجوان ، پروفیشنل پولیس افیسر اور بےداغ کردار کے مالک مسعود احمد نے زبردست کاروائیوں کا آغاز کیا جسے انتہائی زیادہ عوامی اور سماجی پزیرائی ملی اور امید ہو چلی کہ چارسدہ منشیات سے پاک ہونے والا پہلا ضلع قرار پائے گا ۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ یہ ساری کاروائی ٹوپی ڈرامہ نکلی۔ جن لوگوں پر چھاپے پڑے انہوں نے پولیس پر چوری چکاری، خرد بُرد اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پائمالی کے الزامات لگائے۔ نہ ہی ان لوگوں سے کوئی بڑی ریکوریز ہوئی اور نہ ہی ان کے مکانات اور ٹھکانوں سے کوئی دستاویزات اور ثبوت برآمد ہوئے جو انہیں ڈرگ سمگرز بتاتے۔
تاحال میڈیا کو یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ جن انٹرنیشنل سمگلرز کو گرفتار کیا گیا ہے اور جن سے 300 تا 500 گرام آئس برآمد ہوئی تھیں وہ کونسے ممالک کو کن کن مقدمات میں مطلوب تھے۔ تنگی چارسدہ کے ایک خاندان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بھی انٹرنیشنل ڈرگز سمگلرز ہیں اور ان کی رہائش گاہ پر بھی چھاپا مارا گیا تھا۔ ائیئے وہ خبر پڑھتے ہیں جس کو چھاپے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
" چارسدہ : مشہور انٹرنیشنل منشیات سمگلر نصرعلی اور شیر علی کے گھر سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد، جبکہ آپریشن کے دوران 7 قیمتی گاڑیاں،5 موٹر سائیکل اور 44 موبائل فونز بھی برآمد، برآمد شدہ اسلحہ میں ایک ایل ایم جی ، ایک ایس ایم جی ، 2 G3 غار رائفل ، ایک پستول اور 246 عدد کارتوس مختلف بور کے شامل ہیں، مشہور انٹرنیشنل منشیات فروش نصرعلی، شیر علی موجود نہیں تھے، جن کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں، مشہور منشیات سمگر نصرعلی اور شیر علی گاڑیوں میں منشیات سمگل کرنے میں ملوث ہے، منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہی گی، ضلع سے منشیات فروشوں کا خاتمہ اولین ترجیح ہے ، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، شہری پولیس کے ساتھ تعاون کریں، چارسدہ پولیس"۔
اس خبر کے بعد آپ ہی انصاف کیجئے کہ یہ منشیات کے خلاف کاروائیاں ہیں یا مذاق؟
کیا پولیس کسی منصوبے کے تحت ان لوگوں کی ڈرائی کلینیگ کر رہی ہے؟
عدالتوں میں ان کی ضمانتوں میں دو منٹ بھی نہیں لگیں گے اور نہ ہی درج شدہ ایف آئی آر کی پولیس عدالتوں میں دفاع کر سکے گی؟
آخر کس کے بہکاوے میں آکر اور کن غیر مصدقہ اطلاعات کی بنا پر اور کن کی ایما پر یہ کاروائیاں کی گئیں؟
یہ تو جرم کے خلاف کاروائیوں سے زیادہ مارکیٹنگ سٹریٹیجی لگ رہی ہے۔ ان سمگلرز کو کن کے پاس بجھوانے کے لیئے انہیں ڈرایا گیا؟
ملزمان کے بارے میں بیانات اور رویہ مجرموں جیسا کیوں ہے؟
ضلعی پولیس سربراہ کو جو مختصر وقت میں عوام الناس کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں اس پر ضرور سوچنا چاہیئے کہ غلطی کہاں ، کیوں اور کیسے ہوئی ہے۔
واپس کریں