دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملا اور سانپ میں مماثلت
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ملا اور سانپ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ دونوں ایک باپ کی اولاد لگتے ہیں۔ دونوں کو ایک ثابت کرنے کے لیے زیادہ محنت ، زور آور دلیل اور کسی دور کی کوڑی لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ عام باتوں سے ان دونوں زہریلے جانداروں کو با آسانی ایک ثابت کیا جاسکتا ہے۔ سانپ کی زبان اور ملا کی زبان ایک جیسی لمبی ، زہریلی اور ہمہ وقت جبڑے سے شکار کی تلاش میں باہر لپکتی رہتی ہے۔ ملا اور سانپ کی آنکھوں میں یکساں ساکت خونخواری صاف نظر آتی ہے۔ ملا اور سانپ دونوں اپنے دشمنوں کی تصویریں آنکھوں میں نقش کرتے ہیں اور ہر حالت میں اپنا انتقام لیتے ہیں۔
ملا اور سانپ دونوں پیٹ پوجا کے لیے پیٹ پر رینگتے رہتے ہیں۔ ملا اور سانپ دونوں اپنی مٹی کھاتے ہیں۔ دونوں کو زندگی بھر دودھ پلاو مگر ڈسیں گے ضرور۔ دونوں آستینوں میں بھی پلتے ہیں اور موقع ملتے ہی ڈنک مارتے ہیں۔ دونوں اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈکار لیئے بغیر حلق سے زندہ اتارتے ہیں۔ ملا اور سانپ میں ایک اور دلچسپ قدر مشترک یہ ہے کہ سانپ کا زہر اور ملا کا علم اگر چہ ان کے وجود کا حصہ ہوتا ہے مگر ان پر اثر نہیں کرتا۔ مگر وہی زہر جب دوسرے میں اتارا جاتا ہے تو پانی مانگنے کی مہلت بھی نہیں دیتا۔ ملا البتہ سانپ سے ایک وصف میں زیادہ خطرناک ہے کہ سانپ ایک وقت میں ایک بندے کو کاٹتا ہے جبکہ ملا پورے کے پورے سماج ، معاشرے اور ملک کو اپنی زہر کی تاثیر سے ابدی نیند سلاتا ہے۔ ایک اور وصف بھی ملا کو سانپ سے ممتاز بناتا ہے اور وہ یہ کہ سانپ جبلت پر زندہ رہتا ہے جبکہ ملا جبلت کے ساتھ ساتھ خصلت اور مصلحت کو بھی زندہ رہنے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔ اسی خصلت اور مصلحت پر تھوڑی بات کیئے دیتے ہیں۔۔
جب برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ تھا تو ملا نے اہل کتاب کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دیا تھا اور جب انگریز سامراج کو روس سے خطرہ درپیش ہوا تو اسی ملا نے روس کو ملحد قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر اہل کتاب عیسائی کا ساتھ دینے پر زور دیا۔ ملا نے یہی تاریخ افغانستان میں روسی افواج کے آنے کے بعد دہرائی اور ملحد روس کے خلاف اہل کتاب یہود و نصرا کا ساتھ دینے پر مسلمانوں کو اکسایا اور وہ جہادی آگ لگا دی کہ اللہ الاماں۔ ملا کو چین میں مسلمانوں کے خلاف زیادتیاں کبھی یاد نہیں آئی مگر فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کے غم میں وہ مبتلا رہا بلکہ موٹا ہوتا رہا اگر چہ محاورے کے مطابق اسے پتلا ہونا چاہیے تھا مگر ملا کا پتلے پن سے ازلی دشمنی ہے۔ اسی طرح ملا کے جگر میں ماسوائے پشتونوں کے تمام جہاں کا درد ہوتا ہے۔ ملا اور سانپ میں ایک اور قدرے مشترک بھی ہے۔
سانپ سال بہ سال اپنی کھال بدلتا ہے جبکہ ملا موقع و محل دیکھ کر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ آج کل ہم پر چین اور روس کی قربت طاری ہوئی ہے اور ہم خانہ بدوش اپنے ڈور ڈنگر کے ساتھ ملحدوں کے چراگاہوں میں چرنے کے لیے جا ہی چکے ہیں۔ چراگاہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ملا بھی نئی کھال اوڑھنے کی تیاری کرچکا ہے۔ عنقریب آپ سنیں گے کہ اسلام میں یہود اور نصرا کو دوست نہ بنانے کی تاکید کی گئی ہے جبکہ ملحدوں اور عجمی مذاہب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوئی ممانعت نہیں کی گئی ہے۔ اب ملا کے مطابق ملحد چین اور روس کے ساتھ تعلقات عین شرعی ہونگے اور تمام مسلمانوں پر زور دیا جائے گا کہ اس نئی قربت کی رسی کو باہم مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں۔ خیر جہاں تک ہماری بات ہے تو بخدا ہم تو سانپ سے اتنے ڈرتے ہیں کہ کئی مرتبہ رسی کو بھی سانپ سمجھ کر چیخ ماری ہے۔
ہماری ریاست واقعی کمال کی مہارت رکھتی ہے۔ جب اسی ملا سے ڈسواتے ہیں تو ملا کا ڈسا ہوا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور جب اسی سانپ کو مارنے پر آتے ہیں تو ملا بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔
واپس کریں