دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بدیسی مسائل ۔ دیسی حل
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ہمیں فطرت نے شاندار جغرافیا اور زرخیز مٹی دی ہے ۔ وقت نے ہمیں بےمثال ثقافت دی ہے۔ ان عنایات کیوجہ سے تاریخی طور پر ہمارے خطے کے لوگوں کی زندگی ہمیشہ سے بہشتی رہی ہے۔ اول تو یہاں قدرتی مسائل کم رہے ہیں اور جب بھی کوئی مسلہ درہیش ہوا ہے تو اسے مقامی ذہانت اور دیسی وسائل کے ساتھ حل کیا گیا ہے۔ نفسیاتی مسائل کے لیئے روحانیات اور تصوف کا سہارہ لیا گیا ہے اور جسمانی تکالیف کا مداوا مقامی جڑی بوٹیوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مغرب زر پرست ہے لیکن اپنی ہوس زر کو انسانیت ، تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کے لبادے میں چھپایا ہے۔ طب کے شعبے میں آج مغرب راہنما کا کردار ادا کر رہا ہے اور تمام انسانیت مغرب کی احسان مند ہے۔ آپ تیسری دنیا کے کسی بھی شخص کے سامنے ترقی اور انسانیت کی آڑ میں مغرب کی انسانیت دشمنی کی بات تو کریں وہ آپ کی بتیسی آپ کے ہاتھ میں رکھ دیگا۔ یہ مائنڈ سیٹ مغربی پراپیگنڈے کا کمال ہے کہ ہم دوست اور دشمن کی تمیز کھو بیھٹے ہیں۔ جنگی صنعت اور پٹرول کبھی بھی دنیا کی بڑی معیشت نہیں رہی ہے۔ دنیا کی بڑی معیشت فارموسیٹیکل سیکٹر ہے جس نے خود کو انتہائی ہوشیاری کے ساتھ پس پردہ رکھا ہوا ہے۔ شروع کے دنوں میں تمام طبی سائنسی تجربات چویوں پر کیئے جاتے تھے۔ پھر کچھ لوگوں نے چوہوں کے حقوق کے لیئے آواز اٹھائی اور تجربات پر قیود و حدود نافذ کیئے گئے۔ مغربی سامراج کے سرمایہ داروں نے اسکا خوب حل نکالا اور تمام تجربات براہ راست انسانوں پر کرنے کے لیئے تیسری دنیا کو منتخب کیا۔
ہم بھی تیسری دنیا کی سرتاج قوم ہے لہذا مہلک ترین تجربات کے لیئے ہم نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ چوہوں کے مقابلے میں ہم زیادہ رضاکار ثابت ہوئے۔ چوہے تھوڑی بہت مزاحمت کرتے تھے جبکہ ہم مکمل سر تسلیم خم ہیں۔ چوہوں کے لیئے مغربی جمہوریت میں آوازیں اٹھتی تھیں جبکہ ہمارے معاملے میں مغرب مکمل طور پر خاموش ہے اور خود ہم چوہوں سے بھی کم تر ہیں۔ چوہوں پر تجربات کے بہت زیادہ اخراجات آتے تھے جبکہ ہم تجرباتی اخراجات بھی بخوشی خود ادا کرتے ہیں۔ تجربات کے بعد چوہوں کو مارا جاتا تھا جبکہ ہمیں زندہ رکھا جاتا ہے اور ہم خود بھی زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ زندہ رہنے کی خواہش اور کوشش ہمیں صحت کی صنعت کا ایندھن بناتی ہے جسے دواز ساز کمپنیاں چلاتی ہیں اور یوں یہ کھربوں ڈالرز کا صنعت روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے سب سے پہلے ہماری اپنی چیزوں کو دیسی کا نام دیا۔ بالکل درست نام تو دیا کیونکہ اپنی دیس کی چیزیں لغت میں دیسی ہی کہلائی جاتی ہیں۔ ولائتی اور مغربی چیزوں کو یا یوں کہیئے سامراجی مصنوعات کو بدیسی کا نام دیا گیا۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہوتا ہے۔ شکسپیئر نے یونہی کہا تھا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ سامراج نے کچھ اس طرح ہماری زہن سازی کی کہ دیسی لفظ گھٹیا ترین چیز کے لیئے مختص ہوا اور بدیسی نام اعلی معیار کی ضمانت قرار دیا گیا۔ اس میں ہمارا اپنا ہاتھ بھی تھا کہ مقامی سرمایہ دار نے ناقص کوالٹی کی مصنوعات پیش کیں۔ یوں جب بدیسی مصنوعات کا یلغار ہوا تو دیسی مصنوعات ، ذہانت اور مسائل کے حل رفتہ رفتہ معدوم ہوتے چلے گئے اور بدیسی زہر ہمارے رگ و پے میں گردش کرنے لگا۔
اسی بدیسی یلغار میں ہم اپنی اشجار اور فصلوں کو تلف کرتے گئے اور بدیسی اشجار ، پھل پودوں ، سبزیوں ، پھولوں اور اجناس نے اپنی مارکیٹ جمالی۔ یوں زیادہ پیداوار کے چکر میں ہم کوالٹی خوراکی مواد سے ہاتھ دھو بیھٹیں اور زہر کھانا شروع کیا۔ زراعت ایک مکمل پیکیج کی صورت میں آیا جس میں کیمائی کھاد اور زہریلی ادویات شامل تھیں۔ایک طرف ہم نے اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی اپنے کرہ ارض کے فطرتی نظام کو قائم رکھنے کے لیئے اپنے کائناتی رفیق مخلوقات چرند ، پرند اور حشرات الارض کو تلف کیا اور دوسری طرف ہم سلو پوائزن کھاتے رہے۔ ہم مستقل طور پر انتہائی کم مقدار میں زہر کھاتے اور پیتے رہیں اور زہریلی سانسیں لیتے رہیں اور اپنے انگ انگ کو مختلف مہلک بیماریوں میں مبتلا کرتے رہے۔ اعداد و شمار دیکھ کر آپ چونک جائینگے کہ تیسری دنیا کی تباہی کے ساتھ بدیسی سرمایہ دار ترقی کرتے گئے اور عالمی نظام پر گرفت مضبوط کرتے چلے گئے۔ یہی کچھ ڈیری اور پولٹری کی صنعتوں میں بھی دہرایا گیا اور آج ہمارے پاس کھانے پینے کی کوئی بھی چیز خالص نہیں رہی ہے۔ اس نے ابتدائی طور پر ہمارے ماحولیات کی تباہی کی بنیاد بھی رکھ دی۔رہی سہی کسر مقامی اشجار کی تلفی نے پوری کر دی۔
مقامی درخت نایاب ہوتے چلے گئے اور اسکے ساتھ پرندوں اور تتلیوں کی نسلیں ختم ہوگئیں ۔ ہماری ماحولیات کی تگڑی رکھوالی نھنی چڑیا بھی نسل کشی کے آخری مرحلے میں ہے۔ آج غربت اور پاپولیش سے بڑا مسئلہ ماحولیات کا بنا ہوا ہے اور ہم بہت تیزی کے ساتھ مٹنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انتہائی ہوشیاری کے ساتھ سامراجی سرمایہ کاروں نے عوامی زہن سازی کرتے ہوئے مقامی اشجار کی جگہ بدیسی اشجار متعارف کروائیں اور ماحولیاتی تباہی کی مضبوط بنیادی رکھ دی جس سے وہ کئی طریقوں سے کما رہے ہیں۔ بھلے ہم ٹریلین ٹریز پراجیکٹ کریں یا ہر پاکستانی سال میں دو مرتبہ بہار اور ساون میں ائندہ 10 سال تک دس دس پودے بھی لگاتا جائے ہم اپنے ماحولیاتی تبدیلیوں کو نہیں روک سکیں گے۔ بدیسی اشجار ہماری مٹی پر اجنبی مخلوق ہے۔ مریخ سے اتری ہوئی کوئی قاتل مخلوق۔ ہر ملک اور مٹی کی اپنی ساخت ہوتی ہے اور اسکے اپنے اشجار ہوتے ہیں جو ہر فطری ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ مقامی اشجار خود رو ہوتے ہیں۔ مقامی اشجار بنا قیمت دستیاب ہوتے ہیں۔ مقامی اشجار کو نہ کاشت کرنے ، نہ اسکو پانی دینے ، نہ کھاد ڈالنے ، نہ گوڈی کرنے اور نہ ہی زہریلی دوائی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خود بخود اگتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ نتیجتا یہ ہمارے ماحولیاتی توازن کو برقرار اور درست رکھتے ہیں بلکہ ہمیں اشجار کئ کے دیگر تمام فوائد بھی دیتے ہیں۔
تمام پاکستانیوں اور حکومت سے گزارش ہے کہ جنگی بنیادوں پر بدیسی اشجار کی جگہ دیسی اشجار کی کاشت اور ترقی پر توجہ دیں اور مختصر ترین وقت میں پاکستان کی ماحولیاتی توازن کو واپس لوٹنے میں مدد اور معاونت کیجئے ورنہ بڑی تباہیوں کے لیئے تیار رہیئے۔
واپس کریں