دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈھاکہ پر ڈاکہ
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
انقلاب اور نفرت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ انقلابی دنیا اور زندگی کو ایک مختلف زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ انسانیت ان کا ایمان ہوتا ہے اور اعلی و ارفع معاشرتی اقدار ان کا مطمع نظر ہوتے ہیں۔ انقلابی عالم و فاضل، باکردار اور اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے سماج، جملہ سماجی بیماریوں اور ان معاشرتی امراض کا سائنسی حل اور علاج رکھتے ہیں۔ انقلابی پہلے مرحلے میں قوم کی زہن سازی کرتے ہیں، دوسرے مرحلے میں انہیں متحد کرتے ہیں۔تیسرے مرحلے میں انقلاب برپا کرتے ہیں اور چوتھے مرحلے میں اسے کامیاب کروا کر کامرانی کے ساتھ چلاتے ہیں۔ نفرت جعل سازی کے ذریعے دوسرے کا نوالہ چھینتے ہوئے اسے انقلاب کا تڑکا لگانا ہوتا ہے۔ نفرت کی بنیاد پر لائی گئی تبدیلیاں انقلاب نہیں بلکہ سیاسی بدہضمی ہوتی ہے، قبل از وقت ولادت ہوتی ہے جسکا حتمی نتیجہ موت ، تباہی، تنزلی، قتل و غارت اور اقوام کا اندھیروں میں ڈوب جانا ہوتا ہے۔ یہی سیاسی بدہضمی ہم برصغیر پاک و ہند میں متعدد بار مشاہدہ کرچکے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم اور پھر مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا اسی المیئے کے تجریدی شواہد ہیں۔کم و بیش یہی کچھ ہم افغانستان میں بھی کمیونسٹ انقلاب کے نام پر دیکھ چکے ہیں۔ انقلابات برپا کرنے والے ہمیشہ معروضی اور موروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ انقلاب سے قبل ملک کے اندر انقلاب برپا کرنے کے لیئے حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور ان حالات کو ساتھ ملاتے ہوئے بین الاقوامی موزونیت اور پڑوس کے حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان حالات کے حق میں ہونے کے ساتھ ہی انقلاب کا نقارہ بجایا جاتا ہے۔ ہر انقلاب جب ناکامی سے دوچار ہوجاتا ہے تو اسے بغاوت کا نام دیا جاتا ہے اور پھر چند لوگوں کی بغاوت پورے قوم کو اگلے کامیاب انقلاب تک غلام بنائے رکھتی ہے اور غلامی سے بڑھ کر کوئی اور ذلالت ہو ہی نہیں سکتی۔ غلام قوم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور انہیں ہر سانس کے ساتھ مارے جانے کے لیئے زندہ رکھا جاتا ہے۔ خان عبدالغفار خان باچا خان کے پشتون انقلاب کی ناکامی کے بعد آج پشتون قوم کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ افغان انقلاب کے ناکامی کے بعد آج کا افغانستان اقوام کے لیئے نشان عبرت بن چکا ہے۔بلوچ انقلاب کی ناکامی آج بلوچ غلامی کی بدترین مثال ہے۔ متحدہ ہندوستان کی نفرتوں کی بنیاد پر تقسیم آج سسکتی انسانیت کی لاشے پر شیطانی قہقہ ہے۔ نفرتوں کی بنیاد پر سقوط ڈھاکہ آج ڈھاکہ پر سامراجی ڈاکے کا وہ زور دار تھپڑ ہے جسکی گونج آنے والے وقتوں میں نیل کے ساحل سے کاشغر تک سنائی دے گی ۔ یہ چیخ وسطی ایشیاء کے کان پھاڑ کر رکھ دے گا۔ ساہوکار کار چین، مکار مغربی سامراج اور سادھو روس تیسری عالمی جنگ کو متحدہ ہندوستان کے اصل، پرانے اور تاریخی جغرافیئے میں دھکیلنے کے لیئے تیار ہیں جو ہمالیہ کے چوٹیوں سے دریائے آمو کے کناروں تک پھیلتا چلا جائے گا۔ ہمالیہ کے دامن میں بہنے والا خون آزاد سمندروں کے نیلگوں پانیوں کو سرخ کر دیگا۔ اس ہونی کو کوئی روک نہیں سکے گا کیونکہ ہم سب اپنے اپنے پیروں میں اپنے اپنے عقائد، مفادات، جغرافیوں، حب الوطنی، فلسفوں اور مذاہب کے گھنگروں باندھے ہوئے موت کے رقص میں مصروف ہیں۔ اس جنونی رقص میں انسانیت ہم اپنے پیروں تلے کب کا روند چکے ہیں اور بس اب صرف رسمی تدفین باقی ہے۔
واپس کریں