دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ دیش میں فوج کشی پر پاکستان میں بھنگڑے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
برصغیر کا اپنا الگ مزاج ہے جس پر مذہب اور جذباتیت کا غالب رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ویسے تو جنوبی ایشیاء کے تمام باسی مذہبیت اور سیاسی ناپختگی کا شکار ہیں لیکن بنگلہ دیش کے لوگ تو منفرد انداز کے جنونی ہیں۔ اگر برصغیر کے مسائل کے لیئے کسی اکلوتے قوم کو مجرم ٹہرانا مقصود ہو تو وہ بلاشبہ بنگالیوں کے علاوہ کوئی دوسری قوم ہو ہی نہیں سکتی۔ انہی بنگالیوں کو دو قومی نظریئے کا بخار چڑھا اور متحدہ ہندوستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سامراج کی حکمرانی کے لیئے رستہ ہموار کیا۔ اسی بنگال کو بنگلہ دیش کا اسہال ہوا اور پاکستان سے بجائے طبقاتی سوال پر قومیت کے نام سے الگ ہوئے اور حالیہ فوج کشی اسی ندامت کا شاحسانہ ہے کہ بنگلہ دیش کو آزاد کروانے کی بجائے مقامی آقاؤں کے حوالے کیا گیا۔ اسی بنگال نے سید احمد بریلوی کی شکل میں خطے میں طالبانئیزیشن کی بنیاد رکھی تھی اور آج ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیاء کو داعش اور دیگر جنگجو گروہوں کے حوالے کرنے کا اہتتمام کیا۔ بنگالی انتہائی جذباتی اور مذہبی جنونی لوگ ہیں۔
الشمس اور البدر اس کی تاریخی مثالیں ہیں۔ آج بھی بنگلہ دیش میں مذہب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ امریکہ اور اسکے حواری عالمی استعماری سامراج کی وسیع تر مفاد میں ایشیاء میں فوجی ڈکٹیٹر شپس، خستہ حال اکانومی، افراتفری، انسانی حقوق کی پائمالی، غیر جمہوری حکومتیں، انصاف کا عنقا ہونا، سول وار کا سماں اور مذہبی جنونی جتھے ہوتے ہیں۔ آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں نہ ہی کوئی مذہب ہے، نہ ہی نظریہ اور نہ ہی کوئی قومیت۔اگر ہے تو صرف اور صرف اقوام کے معاشی مفادات۔ آج دنیا کی لڑائی اقتصادی لڑائی ہے البتہ اس جنگ کے ایندھن کو خوشنما نام دیئے گئے ہیں جس پر سیاسی جگالی کی جارہی ہے۔
چین روس اور اتحادی ایک طرف جبکہ امریکہ اور اسکے رفیق دوسری طرف ہیں۔ جنگ کا میدان پاکستان کے پشتون ، بلوچ علاقے اور افغانستان کو چنا گیا ہے۔ سمندروں میں چین کو روکنے کے لیئے سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ضرورت تھی جس کے لیئے سری لنکا کو پہلے ہی انگھوٹے کے نیچے لایا گیا تھا جبکہ بنگلہ دیش میں ایک منتخب حکومت کو گرا کر چین کو نکیل ڈال دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں افراتفری برپا کرتے ہوئے اسے مذہبی جنونیوں کے ہاتھ میں دیا جارہا ہے جو پورے خطے کے لیئے بالعموم اور ہندوستان کے لیئے بالخصوص درد سر بننے جارہا ہے۔
ہندوستان کے اندرونی حالات خرابی کی طرف جائینگے جہاں مختلف علحیدگی پسند تحریکیں سر اٹھائینگے، ہندو مسلم فسادات کروائے جائینگے، ہندواتا پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی جائی گی جبکہ کشمیر میں بھی جہادی سرگرمیاں بڑھینگی۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات پھر سے اٹھ کھڑے ہونگے اور سری لنکا بھی ایک نئے شورش کا سامنا کرے گی جس کے لیئے تامل ناڈو جیسی صورتحال پھر سے پیدا کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ سمندروں تک چین کی رسائی کو مشکل سے مشکل بنا دیا جائے گا جبکہ وسطی ایشیاء تک بنگلہ دیش کی جارحانہ موجودگی محسوس کی جاسکی گی۔ ہندوستان کے لیئے انتہائی مشکل صورتحال پیدا یوگی جہاں وہ خارجی تعلقات میں توازن قائم رکھ سکنے میں مشکلات کا سامنا کریگا اور ہندوستان کو کسی ایک بلاک کو اب چننا ہوگا۔
ہندوستان اگر یہ تاریخی سفارتی توازن کھو بیٹھا تو اسی وقت سے ہندوستان کی واپسی کا سفر شروع ہوگا اور عالمی اقتصادی سپر پاور بننے کا خواب چکنا چور ہوگا۔ جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے تو بنگلہ دیش میں فوج کشی پر بھنگڑے ڈالنا انتہا پسندی اور غیر سیاسی ہونے کی مہر کو عالمی سطح پر مزید نمایاں کر دیگا۔
واپس کریں