خالد خان۔ کالم نگار
تخلیق کے دو ممبے روز اول سے چل رہے ہیں ۔ الہی اور انسانی۔ جن چیزوں کی تخلیق رب کائنات نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اسے کوئی مائی کا لال بھی تخلیق نہیں کرسکتا۔ جن چیزوں کی تخلیق پر اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو قادر کیا ہے جب جب بھی اللہ کی منشا ہوگی انسان وہ چیز تخلیق کرتا چلا جائے گا۔ انسان کی تخلیق اللہ تعالی نے اپنی ذات تک محدود کی ہوئی ہے جبکہ ریاست کی تخلیق میں اسکی مرضی کے مطابق انسان آزاد ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم انسان اور دیس کی تخلیق کا موازنہ کرے تو بلا شک وشبہ انسان کو ریاست کے مقابلے میں اعلی و ارفع مقام حاصل ہے۔ ریاست انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتی ہے نہ کہ انسان ریاست کا ایندھن ہوتا ہے۔ میرے ایمان کے مطابق انسان کو ریاست پر فوقیت اور افضلیت حاصل ہے جبکہ عام عقیدہ یہ ہے کہ ریاست انسان سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔
ریاستیں بنتی اور فنا ہوتی رہتی ہیں مگر انسان نے اس دنیا میں ایک مرتبہ آنا ہوتا ہے۔ انسان کا حق ہے کہ بغیر کسی کو دکھ دیئے ہوئے زندگی سے ہر خوشی کشید کرلے۔ میں کسی ایک انسان کے سر پر بھی ریاست کا سودا نہیں کرونگا چہ جائکہ بات کروڑوں انسانوں کی ہو۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ نے ریاست اور شہری کی خود ساختہ معنی، تشریح اور توجیح تراشی ہوئی ہیں جو صریحا انکے اپنے مفادات پر مبنی ہے۔
ریاست ترانوں، ملی نغموں اور جذباتی نعروں سے نہیں چلتی بلکہ مفاد عامہ اسے قائم اور توانا رکھتی ہے۔ ہر وہ ریاست جو اپنے باسیوں کے لیے ماں کی مانند ہوگی دنیا کی کوئی مخالف طاقت نہ اسے مٹا سکے گی اور نہ ہی اس کے انسانیت نواز ساخت میں کوئی فرق پیدا کر سکے گی۔ مگر وہ ریاستیں جو اکثریت کا استحصال کرتے ہوئے اقلیت کے لیے ارضی جنتیں ہو تا دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلنے والی ریاستوں کا مطالعہ اگر کیا جائے تو وہاں بھی زندگی آسودہ ہے کیونکہ ان کی فلاحی نظام بھرپور زندگی کے انگنت مواقع فراہم کرتی ہیں اور پیٹ کے بندوبست کے علاوہ روحانی اور شخصی آزادی کی بھی ضمانتیں ہوتی ہیں جو اسے سوشلٹ ممالک سے بہتر بناتی ہیں۔ چین جیسے سماج اور ریاست کی تو بات ہی الگ ہے جو سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظام کی اچھائیوں کا ایک حسین امتزاج ہے جسکے نقش قدم پر اب روس بھی چل پڑا ہے۔ اسلامی بادشاہتیں جہاں جہاں قائم ہیں ان کی معیشتیں قدرتی وسائل اور مذہبی تجارت کی بنیادوں پر استوار ہیں جہاں کے باسیوں کی زندگی پیٹ اور جنس کے ارد گرد گول دائرے میں گھوم رہی ہے اور دیگر تخلیقی اور تخیلیاتی نعمتوں سے محروم معاشرے ہیں۔ پاکستان جیسا معاشرہ دنیا کے تمام سماجوں سے مختلف ہے جہاں جنگل کو ریاست کا نام دیتے ہوئے جنگل کا قانون لاگو ہے۔
ایک انتہائی مختصر اشرافیہ حکمران ہے جو نت نئے طریقوں سے عوام کو ڈکار لیئے بغیر زندہ نگل رہے ہیں۔ طاقت، مذہب اور خود ساختہ حب الوطنی کے اگ میں میں پاکستانی ریاست اپنے لوگوں کو زندہ بھون رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان نام کی اس شکار گاہ میں کچھ اس بےدردی سے اشرافیہ نے معصوم انسانوں کا شکار کھیلا ہے کہ یہ شکار گاہ اب اجڑنے کے قریب ہے۔ یہ ریاست اب قریب المرگ ہے۔
اشرافیہ نے اس شکار گاہ کو قتل عام کے لیے قائم رکھنے کی ایک عجیب صورت نکالی ہے جسے " ریاست بچاو " مہم کا نام دیا ہے۔ عوامی نعرے کے طور پر " ریاست کو بچانے کے لیے سیاست کی قربانی " کا غلغلہ بلند کیا جاچکا ہے جہاں آئی ایم ایف کی راہنمائی میں اشرافیہ کے دروں پر انسانوں کو قربانی کے بھینٹ چڑھایا جارہا ہے اور مہنگائی کی وہ انتہا کر دی گئی ہے کہ قحط کی صورتحال چل پڑی ہے۔ عوام اگر اب کے بھی اشرافیہ کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو وہ دن دور نہیں کہ عالمی چڑیا گھروں میں جانوروں کی بجائے یہ اشرافیہ پاکستانی انسانوں کا بیوپار شروع کرے گی۔ ریاست کی خالی زمین رہ جائی گی اور ایک ایک کرکے انسان سائنسی تجربا گاہوں اور چڑیا گھروں پر بیچ دیئے جائینگے۔
واپس کریں