خالد خان۔ کالم نگار
قطرہ زندگی ہے اور زندگی قطرہ ہے۔ قطرہ قطرہ جب ملتا ہے تو سمندر بنتا ہے۔ قطرہ قطرہ جب بہتا ہے تو کہیں قوم اور کہیں ہجوم بن جاتا ہے۔ قطرہ قطرہ جب اوپر سے گرتا ہے تو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور خس و خاشاک کو بہا دیتا ہے۔ انسان کی پیدائش بھی قطرے کی مرہونِ منت ہے۔ ہمارے نصیب میں یہاں بھی غلط قطرہ ہی آیا، اسی لیے ہر پاکستانی قطرہ قطرہ ہو رہا ہے۔ کہیں بھوک اور تنگدستی تو کہیں ضروریات اور خواہشات۔ ان سب سے بچ کر بھی نکلیں تو حادثات۔ اس قطرے کے نصیب میں گوہر بننا ہے ہی نہیں۔
کتنا اچھا ہوتا کہ ہر والد اپنے نفس کے ساتھ پولیو کی شیشی باندھ لیتا۔ انسانی قطرہ کس کام کا؟ کاش کہ ہماری پیدائش پولیو کے قطرے سے ہوتی۔ پھر ہم کتنے اہم ہوتے۔ حکومت کے پاس کھانے کو ہو یا نہ ہو، مگر پولیو کے قطرے مسلسل فراہم کیے جا رہے ہیں۔ وہ پولیس اہلکار، جن کی ذمہ داری عام حالات میں عوام کی حفاظت کرنا ہوتی ہے، کس بے دردی کے ساتھ انہیں ہی مارا جاتا ہے، لیکن پولیو کے ایک قطرے کی خاطر وہ اپنی جانیں قربان کرتے رہتے ہیں۔ وہ اعلیٰ پولیس افسران، جن سے عام دنوں میں روزِ محشر ہی ملاقات کا امکان ہوتا ہے، پولیو مہم کے لیے اپنے دفاتر سے نکل نکل کر دیدارِ عام کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ ضلع انتظامیہ، جس پر عام دنوں میں گھونگٹ نکالے دلہن کا گمان ہوتا ہے اور جس کا گھونگٹ اٹھانے کے لیے نذرانہ دینا پڑتا ہے، پولیو کے لیے حجلۂ عروسی سے نکل آتی ہے۔
جب بات پولیو کی آتی ہے تو ریاست، سیاست، حکومت، افسر شاہی، بادشاہی ملا، بکاؤ دانشور اور قلمی طوائف سب ایک ہی صفحے پر آ جاتے ہیں۔ آخر پولیو کے اس قطرے میں کیا ہے؟ یہ اتنا مبارک کیوں ہے؟ یا اللہ! اے کن فیکون کے مالک، حکم فرما اور ہم پاکستانیوں کو پولیو کے قطرے سے پیدا کر۔ ہمارا انسانی قطرہ یہود و ہنود و نصاریٰ کے آباؤ اجداد کو منتقل کر دے۔ یا میرے مولا! جب ہم پولیو کے قطروں سے جنم لیں گے تو ہم ریاست کی نظر میں معزز و مکرم ہوں گے۔ ہم بھی رجے پیٹ کھائیں گے۔ اور میرے مولا! پھر رجے پیٹ کی عبادتوں میں خشوع و خضوع دیکھنا۔
واپس کریں