دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دور کے ڈھول سہانے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ڈھول اور مبلغ میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جہاں بھی بجتے یا بجائے جاتے ہیں آواز وہی نکلتی ہے جو ان کی ساخت میں ہوتی ہے یا جس آواز کے لیئے انہیں بنایا گیا ہوتا ہے۔ ڈھول ردھم ہے اور ردھم پر موسیقی قائم ہوتی ہے، ردھم پر کائنات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ بیٹ ہی کائنات کے وجود میں آنے اور چلنے کا اصل راز ہے۔
انسانی وجود بھی بیٹ پر قائم ہے اور قیامت تک اس قیام کے لیئے مبلغ نے گویا بیٹ کی ذمہ داری اپنے سر لی ہوئی ہے ۔ مبلغ بھی ڈھول کی طرح ہمہ وقت بجتے رہتے ہیں۔ ڈھول تب بےسرا ہوجاتا ہےجب اس میں سوراخ پڑتا ہے اور ایسا ڈھول بجتے ہی سماعت کو برا لگتا ہے۔
ایسے ہی جو مبلغ بھی بےسرے ہوتے ہیں وہ لاکھ بجتے رہیں مگر متاثر نہیں کرتے۔ بعض ڈھول دور سے بھی بجتے ہوئے سریلے لگتے ہیں شائد اس لیئے کہا گیا ہے کہ " دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔" مگر جب وہی دور کے ڈھول گلے میں باندھ دیئے جاتے ہیں تو تب پتہ چلتا ہے کہ اس ڈھول میں تو سوراخ نہیں چھید پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈھول کو نیک بنانے کے لیئے جب پاکستانی گلے میں ڈالا گیا تو اس کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی۔
ڈھول ڈھول ہوتا ہے بجے جب بھی اور جہاں بھی آواز وہی نکلی گی جو ڈھول کے ساخت، سرشت اور شریر میں ہوتی ہے۔ ہم نے بھی جب دور کے ڈھول کو قریب بجتے ہوئے سنا تو یقین جانیئے کہ واقعی اس بات کی سمجھ آگئی کہ " موسیقی حرام ہے۔"
واپس کریں