دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شکوہ ۔خالد خان
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
آج میں بہت دلگیر ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آتی ہے۔ آج 22 سال کی ایک غریب بچی میرے سامنے ریڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی اور میں اسے نہیں بچا سکا۔ اسکے گردے ناکارہ ہوگئے تھے۔ جس گھر میں فاقے ہوں وہاں ٹرانسپلانٹ کا تصور بھی مذاق ہوتا ہے۔ ڈائلیسیز پر خرچہ، خون کا انتظام، داوئیاں، پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں جانا، کرایہ، زاد راہ اور گھر کے کسی مرد کا اس دن مزدوری ترک کرنا۔
واقعی غربت سے بڑھ کر کوئی دوسری ذلالت ہو ہی نہیں سکتی۔ صحت کارڈ میں بہت سارے بنیادی امراض کا علاج نہ شامل ہونا اور پھر صحت کارڈ کا نامعلوم ڈر کہ حکومت نے انشورنس کمپنی کو ادائیگی کی ہوگی کہ نہیں؟ صحت کارڈ چلے گا کہ نہیں؟
میں اس کو کڈنی سنٹر حیات آباد لے گیا۔ جتنا ممکن تھا اسکا علاج کروایا۔ مزید مجھ میں بھی طاقت نہیں تھی۔ ڈاکٹرز نے کھل کر کہا کہا کہ چند دن کی مہمان ہے۔ کسی بھی لمہے اسکی کڈنیز شٹ ڈاون ہو جائینگی۔ ہسپتال سے واپسی پر مجھ سے اس بچی نے ایک درخواست کی کہ اسکے گھر والوں سے یہ بات چھپا کر رکھوں۔
زندگی بھر انکو یہ ندامت لاحق رہی گی کہ وہ غربت کیوجہ سے اپنی بچی کو نہ بچا سکے۔ میں نے اسکے لیئے جھولی بھی پھیلا دی لیکن ہمارے ہاں بےحسی کا جو عالم ہے لگتا ہے قیامت والی نفسانفسی ہے۔ بھلائی کے کام بندے کی شخصیت کو بھی داغدار کرتی ہے لیکن مجھ جیسے درویش کو کبھی بھی یہ فکر نہیں رہی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ میں نے اپنی زندگی اس مٹی اور زمین زادوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیئے گزار دی لیکن میں سماج میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکا۔ مجھے ندامت بھی ہے اور میں اس ملک کے غرباء سے شرمندہ بھی ہوں۔ ق
سم رب ذوالجلال کی میں نے ساری زندگی انقلاب کے لیئے کام کیا مگر میں ناکام ہوا۔ میرے جیسے ہزاروں سیاسی کارکن ناکام ہوئے۔ میں اب خود قریب المرگ ہوں۔ مجھے بھی ایک لاعلاج مرض لاحق ہوا ہے۔ مجھے خدا سے بس ایک شکوہ ہے کہ یا تو دنیا میں غریبی کو نہ پیدا کرتا یا مجھے بےحس تخلیق کیا ہوتا۔
واپس کریں