دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پشتون خانہ جنگی کے لیئے تیار رہیں
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
خطہ پہلی مرتبہ ایک ایسے جنونی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے کہ جسکے نتیجے میں صرف ملکی نہیں بلکہ علاقائی جغرافیئے بھی عالمی مفادات کے تناظر میں تبدیل ہونگے۔ دو قطبی دنیا کو یک قطبی دنیا میں تبدیل کرنے کے لیئے جو کامیاب پالیسی عالمی استعمار نے افغانستان میں اپنائی تھی وہی پالیسی دوبارہ نافذ کی جا چکی ہے۔ سویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ، برلن دیوار کا زمین بوس ہونا اور امریکہ کا دنیا میں واحد سپر پاور ہونا تب ممکن ہوا جب امریکی سی آئی اے نے سویت یونین کو بےوقوف بنا کر افغانستان پر پیش قدمی کرنے کے جال میں پھانس دیا۔ پشتون روسی افواج کے خلاف جہاد کرنے پر کمر بستہ ہوگئے اور دنیا بھر سے مجاہدین اور امداد بھیجنے کا اہتمام کیا گیا۔
اسامہ بن لادن کو بطور مجاہد ہیرو تراشا گیا اور بین الاقوامی جہادی نیٹ ورک کا بنیاد رکھا گیا۔ سویت یونین کو تباہ کرنے کے بعد افغان سرزمین کی بےتحاشا جہادی آبیاری کی گئی اور نائن الیون کروا کر افغانستان پر چڑھائی کی راہ ہموار کی گئی۔ سویت یونین سے بھی زیادہ خونریز جہاد امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف افغانستان میں لڑی گئی۔
افغانستان پر امریکہ کا مکمل قبضہ ہوا اور اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ٹھکانے لگا دیا گیا کہ مزید اس کردار کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ پھر اچانک ہنستے بستے جمہوری افغانستان کو جوں کے توں طالبان کے حوالے کیا گیا۔ پشتونوں کو کئی باتیں غیر دیانتدارانہ طور پر استعماری مفادات کے لیئے ازبر کرائی گئی ہیں۔ پشتونوں کے بےشمار مغالطوں میں بہادر ہونا ، اسلام پر جان قربان کرنا ، سپر پاورز کو شکست دینے والے، خراسان کی افواج جو اسلام کی آخری لڑائی لڑینگے ، غزوہ ہند سے سرفراز ہونگے اور چلتے چلتے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے مطابق لال قلعہ دہلی پر سبز ہلالی پرچم لہرائینگے۔ پشتونوں کو بحیثیت قوم نہیں بلکہ اکثریتی طور پر جنگ میں ملوث کرنے اور ذاتی مفادات کی لڑائی کو جہار کا نام دے کر شامل کرنے کا مجرب نسخہ کفار کی افواج کا پشتون مٹی پر قدم رکھنا ہوتا ہے اور یہ قدم رکھوایا جائے گا چاہے افغانستان میں ہو یا پاکستان میں ۔ مملکت پاکستان کئی ممالک کے ساتھ مختلف فوجی معاہدوں میں جڑا ہوا ہے جس میں روس اور امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اور امن کے لیئے مشترکہ فوجی مشقیں بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکی دستے پاکستانی افواج اور پولیس کے ساتھ مل کر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگی مشقیں نوشہرہ میں کر چکی ہیں۔ ان مشترکہ جنگی مشقوں کو سوشل میڈیا پر انتہائی غلط اور منفی انداز میں پیش کیا گیا اور نوشہرہ میں پروٹوکول کے مطابق امریکی جھنڈا لہرانے کو غلط رنگ دیکر ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا امریکی فوج عملی طور پر پشتون سرزمین پر دیشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے آچکی یے ۔ بہرحال ان حالات میں جب دہشت گردی کے خلاف ایک اور منظم عسکری کاروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ان مشترکہ جنگی مشقوں نے کوئی اچھا پیغام نہیں دیا ہے۔
بدقسمتی سے ہم افواہوں کو حقیقت سمجھتے ہوئے خطرناک فیصلے کرنے کی عادی قوم بن چکے ہیں۔ یہ بات بھی لازمی ہے کہ آنے والے وقتوں میں امریکہ اور اسکے اتحادی اس جنگ میں ہر ممکن مدد کرینگے جسے مخالف قوتیں غلط رنگ دے کر پشتونوں کو اس جنگ میں جھونک سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نئے صورتحال کا باریک بینی کے ساتھ حقیقت پسندانہ مطالعہ کیا جائے تاکہ درست فیصلے لیئے جاسکیں۔ حقیقت پسندانہ تجزیئے کے لیئے ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان اور امریکہ دونوں نے مجاہدین اور طالبان کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ مجاہدین اور طالبان اللہ کے سپاہی آزاد مخلوق ہیں جن کا مقصد کرہ ارض پر شریعت محمدی کا نفاذ ہے۔ طالبان اور مجاہدین سیاست، سفارت اور عسکریت کو خوب سمجھتے ہیں اور راہنمائی قرآن و حدیث سے لیتے ہیں۔ طالبان اور مجاہدین نے اسلامی بصیرت سے کام لیتے ہوئے امریکہ اور پاکستان دونوں کو یہ باور کرایا تھا کہ وہ انکے رفیق ہیں ۔ دونوں ممالک نے بجائے ان کو آزاد حریت پسند کے کرائے کے ٹٹو سمجھا اور دونوں ممالک کو منہ کی کھانی پڑی۔ دونوں ممالک کے چہرے پر افغانستان میں چین کی موجودگی اور چینی مفادات کا تحفظ ایک زنانے دار تھپڑ ہے۔ چین کسی صورت افغانستان سے دستبردار نہیں ہوگا اور امریکہ کسی قیمت پر بھی چین کو افغانستان میں قدم جمانے نہیں دیگا۔
چین کبھی بھی اپنی سرزمین پر کوئی بھی لڑائی نہیں لڑیگا مگر افغانستان میں ایک خونریز تصادم سے وہ کبھی بھی منہ نہیں موڑے گا۔ ایک مرتبہ پھر دنیا چین ، روس اور امریکہ کے درمیان تقسیم ہوگی اور عالمی معاشی جنگ افغانستان، پختونخوا اور بلوچستان میں لڑی جائیگی۔ پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقے ، جنوبی اضلاع، ملاکنڈ ڈویزن اور شمالی علاقہ جات جنگ کا میدان بنینگے۔ پختونخوا پرانے وادئ پشاور تک سکڑ جائے گا اور انتہائی بدامنی سے دوچار ہوگا۔ پختونخوا کے مذکورہ علاقوں میں ایسے جہادی تخلئق کیئے جائینگے کہ وہ بیک وقت پختونخوا اور افغانستان میں لڑینگے اور چینی مفادات کو نشانہ بنائینگے۔ یہ ایک خطرناک عمل ہوگا اور اسکے انتہائی خطرناک نتائج برآمد یونگے جو تصور سے بھی زیادہ خون آشام ہونگے ۔ اس جنگ میں پشتونوں کو جھونکنے کے لیئے ہم رنگ زمین دام بچھائی جائیگی اور ایسے خوشنما تصورات دیئے جائینگے کہ اکثریتی پشتون جوق درجوق جہادی دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہو جائینگے۔ افغانستان کی طالبان حکومت بھی خاموش تماشائی نہیں رہیگی اور عالمی جہادی گروہ بھی مقدس جہاد کے لیئے پہنچ جائینگے۔ چین ، روس ، ہندوستان اور ایران بھی برابر کے فعال رہینگے اور باقی دنیا بھی لاتعلق نہیں رہیگی اور یوں کثیرالجہتی دہشت گردی وجود میں آجائیگی ۔ مقامی جہادی تنظیمیں بھی اس جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لیئے جھونک دیئے جائینگے۔
مختلف جہادی افکار کی تنظیمیں اور مدارس جو بہت پہلے سے پختونخوا کے طول و عرض میں پروان چڑھائے گئے ہیں خانہ جنگی برپا کرنے کے کام ائینگے۔ سیاسی جماعتوں ، روشن فکروں اور سول سوسائٹی کے پاس اسکے علاوہ کوئی دوسرا انتخاب نہیں رہے گا کہ ریاست اور امریکی جنگ اور پالیسیوں کے حق میں کھڑے ہو جائیں۔ یہ صورتحال بالکل افغانستان والی بن جائیگی اور قتل و قتال کے نئے مثال قائم کیئے جائینگے۔ لڑائی میں شدت کی وجہ سے پاکستان ایک اور پیچیدگی کا سامنا کر سکتا ہے اور وہ حساسیت پاکستان کی ایٹمی اثاثے ہیں۔ گھمبیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ بھی اپنا منصوبہ پہلے سے بنائے ہوئے ہوگا اور براہ راست مداخلت کے لیئے موزوں موقع کے انتظار میں ہوگا کہ امن دستے بھیجے۔
امریکہ ابکے ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش کریگا۔ افغانستان اور خطے سے چین اور روس کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کو بھی ختم کرنے کی کوشش کریگا۔ اس لڑائی نے بہت لمبا جانا ہے اس لیئے امریکہ اس جنگ کو اقوام متحدہ کے ذریعے لڑنے اور جیتنے کی کوشش کریگا۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ریاست کو موجودہ پالیسی کا از سر نوع جائزہ لینا چاہیئے۔ سیاسی جماعتوں اور سماجی شعور رکھنے والے اہل فکر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ افواج پاکستان ، پاکستان کی پیرا ملٹری فورسز ، پاکستان کی ہولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے اور فورسز اس قابل ہیں کہ وہ اپنی لڑائی خود کامیابی کے ساتھ لڑ سکتے ہیں۔ کسی قسم کی غیر سفارتی بیرونی مدد خصوصا کھلے عام امریکی فوجی امداد ، نقد رقومات ، امریکی فوجی قیادت کی برہنہ مداخلت اور امریکی حکمت عملیوں کے مطابق جنگ لڑنا پاکستان کے لیئے بےحد مسائل کو جنم دیگا۔
پاکستانی فوج ، پیرا ملٹری ، پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے عوام کی مدد اور تعاون سے یہ جنگ جیت سکتے ہیں اور کسی بھی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ مدد جنونیت کی آگ پر پٹرول چھڑکنے کے مترادف ہوگی۔ اس سے قبل کہ آسمان تک بلند ہونے والے آگ کے شعلے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیں ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے اور حب الوطنی کے عظیم مثال قائم کرتے ہوئے آواز بلند کرنی ہوگی ورنہ جو تباہی پشتونوں اور پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پشتونوں کو ہر حال میں خود کو اس جنگ سے دور رکھنا ہوگا اور یہ ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی راہنمائی کریں۔ مولانا فضل الرحمن ، ایمل ولی خان، منظور پاشتین ، محمود خان اچکزئی ، سراج الحق اور آفتاب شیرپاو پر خصوصی طور پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پشتون قوم کی راہنمائی کریں اور قوم کو امریکہ اور چین کے جنگ سے دور رکھیں۔
واپس کریں