دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قرآن جل رہا ہے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
دنیا بھر میں قرآن جل رہا ہے مگر سب سے زیادہ بےحرمتی قرآن پاک کی اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ کسی بھی مذہب کی توہین ناقابل معافی جرم ہے اور آزادی اظہار رائے کی منطق بے سروپا اور بےمعنی ہے۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کا تازہ ترین واقعہ ہر مسلمان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جس کے ہم بحیثیت قوم مستحق ہیں۔ اگر مسلمانوں میں غیرت ہوتی تو آج کسی کی کیا جرآت ہوتی کہ اسلام ، قرآن پاک اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے۔ مسلمان ممالک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہیں، منظم افواج اور ایٹمی قوت سے مزین ہیں جبکہ افرادی قوت کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ باوجود ان مادی حقائق کے مسلمان ممالک بھوک ، افلاس، غربت ، جہالت ، ناخواندگی، امراض ، دہشت گردی اور گوں نا گوں مسائل کے شکار ہیں۔
بجائے ان وجوہات پر سوچنے کی ہماری اسلام جمعہ کے جمعہ احتجاج تک سمٹ آئی ہے۔ کسی بھی مسلمان ملک میں نہ جمہوریت ہے، نہ خلافت ہے اور نہ ہی عام مسلمان مملکتوں کی دولت اور حکومتی رائے میں شامل ہے۔ ہم اگر بوجوہ خلافت قائم نہیں کر سکتے یا مغربی جمہوریت ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہے تو کیا ہم نے آج تک تکلف کیا ہے کہ اپنے عقائد اور اقدار کے مطابق کوئی نظام وضع کرے؟ شریعت محمدی کے نفاذ میں آخر کونسے مسائل حائل ہیں یا ہم اس غلط فہمی بلکہ کفریہ سوچ کے شکار کیوں ہیں کہ ہم اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے نظام سے کوئی بہتر نظام وضع کرسکتے ہیں؟ اصل مسلہ یہ ہے کہ ہم زبانی کلامی مسلمان ہیں۔ ہم منافقت کے اعلی درجے پر فائز لوگ ہیں۔ قرآن تب تک جلائے جائینگے جب تک ہم میں ہر مسلمان خود مجسم قرآن نہیں بنتا۔ کفار سے بڑھ کر ہم قرآن پاک کے توہین کے مرتکب ہیں۔
بحثیت مسلمان قرآن کو ہم نے توہم پرستی کے شکار ہو کر تبرک کے لیے گھروں میں رکھا ہوا ہے اور مادی مفادات کے لیئے قرآن پر جھوٹے قسمیں کھانے کے لیئے طاق میں سنبھالا ہوا ہے۔ ہمارے اعمال قرآن کے منافی ہیں۔ ہم نے قرآن کو اپنی ذات پر نافذ نہیں کیا ہے۔ ہم قرآن کی مطابق زندگیاں نہیں گزار رہے ہیں۔ ہمارے معاملات قرآن کے تابع نہیں ہیں۔ ہم قاری ضرور ہیں مگر ہم قرآن نہیں ہیں۔ قرآن قیامت تک مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے نازل ہوا تھا مگر بجائے ہدایت لینے کے ہم قرآن کے ساتھ بھی کھلواڑ کر رہے ہیں۔
جب مسلمان قرآنی مسلمان تھے تو دنیا مسلمانوں سے لرزتی تھی۔ وہ اقوام جو صدیوں تک مسلمانوں کے مفتوح رہے تھے اور جنہیں مسلمانوں نے زندگی، فلاح اور انسانیت سے روشناس کرایا تھا جب ہم نے اپنا رشتہ قرآن کے ساتھ منقطع کیا تو آج ہم اپنے سابقہ غلاموں کے غلام ہیں۔ ہم منتشر، منقسم اور عدم اتفاق و اتحاد کے شکار وہ ناعاقبت اندیش مسلمان ہیں کہ آج ہمارے دین، شعائر، انبیا اور مقدس کتاب کا مذاق اڑایا جارہا ہے لیکن نہ ہم اور نہ ہی ہمارے حاکموں میں وہ دم خم ہے کہ وہ ہاتھ کاٹ دے جس نے قرآن کی بےحرمتی کی ہے۔ ہم سیاست اور منافقت کے شکار آلودہ لوگ صرف اور صرف رسمی احتجاج ہی کرسکتے ہیں اس سے زیادہ ہم میں ایمان ہے ہی نہیں۔
اگر ہم واقعی مسلمان ہے اور ہمیں اپنے خدا اور رسول سے محبت ہے تو سب سے پہلے قرآنی مسلمان بن کر اپنی سماجوں کی اصلاح کریں۔ قرآنی حاکموں کو اقتدار دیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام کی سنتوں پر عمل پیرا ہوکر دنیا کی قیادت کریں ورنہ منافقانہ احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں کہ قرآن ہماری طاقوں میں جل رہا ہے۔ جب ہر مسلمان قرآنی مسلمان بنے گا تو پھر کوئی بھی مائی کا لال قرآن جلانے کی جرآت نہیں کرسکے گا۔
واپس کریں