دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شفاخانہ حیوانات چارسدہ
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
الحمدللہ سیاسی طور پر سب سے زیادہ متحرک ضلع چارسدہ میں جانوروں کے علاج معالجے کے لیئے ایک بہت بڑا اور جدید ہسپتال موجود ہے جسے سرکاری لغت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چارسدہ کہتے ہیں۔ اس ہسپتال کا کمال یہ ہے کہ یہاں پر جانوروں کے علاج معالجے کے لیئے انسان نما جانور تعینات ہیں جو دم ہلا جلا کر اور سینگیں آڑھی ترچھی کرتے ہوئے دل کھول کر چیر پھاڑ کرتے ہیں۔ چارسدہ کے کم و بیش 25 لاکھ جانوروں کے لیئے یہ واحد کیٹیگری اے شفاخانہ ہے۔
شعبہ صحت کے گرائمر کے مطابق کیٹیگری اے شفاخانے میں 2500 نفوس کے آبادی کے لیئے اک بیڈ مختص ہوتا ہے جس کے رو سے شفاخانہ حیوانات چارسدہ میں آبادی کے تناسب سے 800 بیڈز ہونے چاہیئے مگر بیڈز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ خیر جانور لیٹنے کی بجائے ویسے بھی کھڑے رہنے کی خصلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کیٹیگری اے ہاسپٹل میں عملے کی تعداد 2 ہزار ہونی چاہیئے جبکہ یہاں کل عملہ صرف 478 افراد پر مشتمل ہے۔ کیٹیگری اے ہاسپٹل میں سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور جدید لیبارٹری لازمی ہوتی ہے مگر اس شفاخانے میں یہ سہولیات پھتر کے زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کسی بھی شریفانہ اور قابل قبول معیار کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال اس ضمن میں میرے سجن چودھری اللہ دتہ کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے ماحول میں جانور بیمار ہوجاتے ہیں لہذا ہسپتال کو کچرا گھر سوچ سمجھ کر اور جانوروں کے وسیع تر مفاد کے لیئے بنایا گیا ہے۔ ہمارے مسجد کے پیش امام جمعہ گل استاد بھی اس سلسلے میں چودھری اللہ دتہ کے ہمنوا دکھائی دیتے ہیں۔
بچوں کے وارڈ میں ایک بستر پر تین تین بچوں کو پایا جاسکتا ہے جو کہ میمنوں اور پلوں کے حساب سے برابر کی تعداد ہے اور تسلی بخش ہے۔ حیوانات کو میسر صحت کارڈ کی سہولت معالجین کی کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور کاغذی حد تک حیوانات کو مہنگی اور انگریزی ادویات میسر ہوتی ہیں۔ صحت کارڈ پر خرچ شدہ رقم سے زیادہ کٹوتی ہوتی ہے اور عیاشی کا موثر ترین ایجاد ہے۔ ایمرجینسی میں فرمائشی مہنگی ادویات اور انجیکشنز بازار سے مریضوں کو کہہ کر منگوائے جاتے ہیں۔ یہ فرمائش دوا ساز کمپنیوں کے حکم پر پوری کی جاتی ہے۔ ہسپتال کے دیوار سے منسلک ادویات کی کئی دوکانیں ڈاکٹرز اور یسپتال کے غیر رسمی فرنچائز ہیں۔ شفاخانہ حیوانات چارسدہ گویا معالجین کی ٹیکسالی اور ہیجڑوں کی سہولت کے ساتھ مقامی ڈبگری ہے۔
معالجین زیادہ مغز سوزی اور غیر ضروری مشق پر یقین نہ رکھتے ہوئے مریضوں کو پہلی فرصت میں پشاور ریفر کرتے ہیں۔ اکثر چارسدہ میں آئے ہوئے مہمان شفاخانے کو فلائنگ کوچ کا اڈہ برائے پشاور تصور کرتے ہوئے مریضوں کے ساتھ نجی ایمبولیسیز میں سوار ہو کر مفت منزل مقصود پر پہنچتے ہیں۔ ایسی سواریوں کو مریض کے لواحقین اور نجی ایمبولینسیز کے ڈرائیورز اور معاونین ایک دوسرے کے ہمسفر اور معاون سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔ شفاخانہ حیوانات چارسدہ کی عمارت اور اس میں واقع وارڈز، او پی ڈیز، ایمرجینسی اور دیگر مراکز سہولیات کو اس طرح ڈیزائن کرکے بنایا گیا ہے کہ انسانوں کو یہ محبوبہ کا قلعہ لگے اور چوہے بلیاں یہاں پر راستہ گم کر دیں۔
جہاں تک صحت کے عملے کی بات ہے تو خواتین و حضرات ایک دوسرے سے بڑھ کر خوش اخلاق ہیں۔ خصوصا خواتین عملہ کی خوش اخلاقی کو دیکھتے ہوئے انگریز کو داد دینی پڑتی ہے کہ اس شفاخانے کا ایک نام انگریزی میں " اینیمل ہسبینڈری " بھی ہوتا ہے۔ چودھری اللہ دتہ اپنی نالائقی کی بنا پر ان خواتین کو جانوروں کے ساتھ بیاہی ہوئی سمجھتا ہے البتہ استاد جمعہ گل اس موضوع پر ہمیشہ خاموش پائے گئے ہیں۔ مرد عملہ زیادہ تر بستہ الف کے بدمعاشوں پر مشتعمل ہے جو خان خوانین، وزیر و کبیر اور ملا و افسر شاہی کے ذاتی و سیاسی مصاحب اور بندوق بردار ہیں اس لیئے ان کی ناک شریف پر کبھی بھی مکھی بیٹھنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ ہسپتال کے سربراہ بھی ہمیشہ انہی لوگوں کے انگھوٹے کے نیچے دبے رہتے ہیں۔
چودھری اللہ دتہ کا خیال ہے کہ جب تک ضلع چارسدہ کے شرفاء یا باالفاظ دیگر اشرافیہ کا علاج معالجہ شفاخانہ حیوانات چارسدہ میں نہیں ہوتا تب تک سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا۔ پیش امام مسجد جمعہ گل استاد کا کہنا ہے کہ ایسا تو قیامت تک ہوتا ہوا ممکن نہیں ہے۔ چارسدہ کا اشرافیہ تو اپنے پالتو کتے بلیوں کا علاج تک لنڈن سے کرواتے ہیں چہ جائیکہ وہ خود اپنا علاج معالجہ شفاخانہ حیوانات چارسدہ سے کروائیں گے۔ میں نے بےساختہ چودھری اللہ دتہ اور جمعہ گل استاد سے پوچھا کہ کیا چارسدہ کے عوام کی حیثیت اشرافیہ کے پالتو کتوں اور بلیوں سے بھی کم ہے؟ اس سوال پر دونوں حضرات چیں بہ چیں ہوگئے۔
واپس کریں