دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مجھے اسرائیل سے نہیں سرمایہ داری سے نفرت ہے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ایک عام مغالطے کے برعکس نہ ہر یہودی سرمایہ دار ہوتا ہے اور نہ ہر سرمایہ دار یہودی ہوتا ہے۔ اسی عام مغالطے کے برعکس نہ ہر یہودی ظالم ہوتا ہے اور نہ ہر ظالم یہودی ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انسان صرف دو طبقوں میں تقسیم ہیں۔ انسان اور حیوان۔ غریب اور امیر۔ زیر دست اور بالا دست۔ حاکم اور محکوم۔ ظالم اور مظلوم۔ اس حقیقت کے علاوہ مذاہب کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
پیپسی ، کوکا کولا اور دیگر یہودی مصنوعات کے خلاف مذہبی بنیادوں پر جو کمپئین شروع کی گئی ہے میں اسکے خلاف ہوں۔ یہ کمپئین ہونی چاہیئے اور ضرور ہونی چاہیئے مگر انسانی بنیادوں پر نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔ یہودی مصنوعات کے خلاف مذہبی بنیادوں پر کمپئین اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کہ آپ کافر زہر کی جگہ مسلمان زہر کھائیئے۔ زہر زہر ہوتی ہے چاہے اسرائیل میں بنی ہوئی ہو کہ سعودی عرب یا ایران میں۔ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف ہراپیگنڈے کا فائدہ دوسرے مذاہب کے وہ کارباری طبقات اٹھا رہے ہیں جو بوجوہ اسرائیلی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے کے قابل نہیں تھے۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے اندرونی تضادات ہیں اور سرمایہ داری کے سب سے بڑے دلال مذہب کا طوائفی کردار ہے۔ میں اگر چہ کوئی ملا مفتی نہیں ہوں مگر اسلام نے یہودیت کی مخالفت نظام زر کی حمایتی ہونے کی وجہ سے کی تھی۔اسلام اپنی روح میں سرمایہ داری کے خلاف اور شراکت داری کا داعی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ اس مغالطے میں ہیں کہ دنیا کی اکانومی جنگوں ، اسلحے کی صنعت اور پٹرول پر چلتی ہے۔ دنیا کی اکانومی فارموسیٹیکل کمپنیوں کی مرہون منت ہے اور اسکی بنیاد پہلی جنگ عظیم میں رکھی گئی تھی بلکہ دونوں عظیم جنگیں فارموسیٹیکل کمپنیوں کی برپا کی ہوئی تھیں۔
پیپسی ، کوک ، آئل ، گھی ، چینی ، ٹوتھ پیسٹ ، صابن ، شیپمو اور جتنی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات اور اسکے مقامی نقول ہیں یہ سب فارموسیٹیکل کمپنیوں کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹس کے شاخسانے ہیں۔ انہی مصنوعات کے ذریعے دنیا بھر میں ہر مرض کے مریض تخلیق کیئے جارہے ہیں جو صحت کے شعبے کے لیئے خام مال ہے۔ ہمارے مذہبی راہنماؤں ، سیاسی اور سماجی بڑوں ، اہل دانش اور قلم کاروں کو جدید دور کے ان زہروں کے خلاف کام کرنا چاہیئے نہ کہ صرف کسی مخصوص ملک ، مذہب ، کمپنین ، برانڈ یا زہر کے خلاف بولنا چاہیئے۔ اسرائیل آج فلسطین میں جتنے بچوں کو مار رہا ہے یہ مصنوعات دنیا بھر میں اس سے دس گنا زیادہ انسانوں کو مار رہے ہیں ۔ ہمیں اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے کہ ہم انسان کو واپس فطرت کی طرف لے جائیں۔ ٹوتھ پیسٹ سے مسواک بہترین ہے۔ سادہ تازہ لیموں پانی اور لسی تمام مشروبات کے بادشاہ ہیں۔ دیسی انڈہ ، مرغ ، سبزیاں، دودھ اور دودھ کے دیگر مصنوعات اور وہ تمام چیزیں جو ہمارے بزرگ استعمال کرتے تھے ہم نے انہیں دوبارہ نئی نسل کو متعارف کروانا پڑیگا۔
آپ پڑھیئے، پوچھیئے اور ہسپتالوں میں جاکر خود دیکھیئے اور جاننے کی کوشش کیجئے کہ سسکتی ہوئی انسانیت اور موت کے دہلیز پر کھڑے ہوئے ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کے مجرم کون ہیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے زہر جو مختلف مصنوعات کے نام سے آپ استعمال کرتے ہیں اور جو خاص کر بنائے گئے اس غرض سے ہیں کہ فارموسیٹیکل کمپنیوں اور صحت کے وسیع و عریض شعبے کے لیئے گاہک ( مریض ) پیدا کیئے جاتے رہیں۔ مذاہب سے نکل کر طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کیجئے ورنہ انسان اجتماعی خودکشی کے لیئے ٹکٹکی کے قریب پہنچنے کو ہے۔
واپس کریں