دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا پختونخوا میں گورنر راج کے لیئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے؟
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ہمارے ہاں ریاست کبھی بھی شراکت اقتدار کے لیئے آمادہ نہیں رہی ہے۔ مجبوریوں کے تحت جب جب بھی کسی طفیلی کو ہڈی ڈالنی پڑی ہے، مناسب وقت پر اسکے حلق میں انگلیاں ڈال کر اس سے ابکائیاں کرائی گیئں ہیں۔ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار وہ سامراجی عالمی قوتیں رہی ہیں جنہوں نے جمہوریت ، انسانیت اور سماجی اقدار کے نعرے لگائے مگر پاکستان میں عملا اسکا الٹ کیا ۔ ان کے شانہ بشانہ وہ طاقتیں بھی کھڑی رہی جنہوں نے عوامی راج اور طبقاتی سیاست کا چورن بیچا۔ چاہے وہ امریکہ یا اسکے اتحادی مسلم یا غیر مسلم ممالک رہے ہو یا اشتراکی قائدین روس ، چین اور انکے کاسہ لیس ہوں ، سب نے اپنے اپنے قومی مفادات کے لیئے پاکستان پر غیر جمہوری قوتیں مسلط کرتے ہوئے ان کی سرپرستی کی۔ پاکستانی سماج کی اقتصادی ، اخلاقی ، سیاسی اور معاشرتی پستیوں کے ذمہ دار عالمی استحصالی ٹولے ہیں۔ موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری ریاست بھی ڈریکولا بن چکی ہے جسے ہر دم اپنے لوگوں کا تازہ اور گرم خون چاہیئے۔
پاکستان کی عموما اور پشتون اور بلوچوں کی خصوصا اپنی خوش قسمتی ہی بدقسمتی میں تبدیل ہوتی چلی گئی ہے۔ پشتونوں اور بلوچوں کی خوش بختی ان کی جیو پولیٹیکل حیثیت تھی جو عالمی قوتوں کے درمیان طاقت کی توازن اور اونچ نیچ کے لیئے ناگزیر تھی۔ اگر دیانتداری کے ساتھ یہ جیو پولیٹیکل پوزیشن ملک و قوم کے مفاد کے لیئے استعمال کی جاچکی ہوتی تو آج پاکستان ایک ترقی یافتہ ، خوشحال اور مہذب ملک ہوتا مگر بدقسمتی سے اس خصوصی حیثیت کو ذاتی مفادات کے لیئے قربان کر دیا گیا اور 25 کروڑ عوام کو جاہل ، گنوار ، ناخواندہ اور متشدد کر دیا گیا۔ اصل زمین زادوں کو دشمن بنا کر پیش کر دیا گیا اور دشمنوں کو سجنوں کا درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں محمد خان جونیجو اور عمران خان سے زیادہ فرمانبردار وزیر اعظم نہیں گزرے ہیں مگر فوج ان کے ساتھ بھی نہیں چل سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بڑا محسن کبھی فوج کا رہا ہی نہیں ہے مگر اسے بھی وفاداری کی سزا دے دی گئی۔ اگر چہ پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومت کو عسکری آشیرباد حاصل ہے اور امین اللہ گنڈاپور اپنا ہی بچہ ہے مگر کیا کیا جائے کہ ریاست کو شریکہ کبھی قبول نہیں رہا ہے۔ عمران خان کو نہ نکالنے کے لیئے جیل میں ڈالا گیا ہے اور اس کی تالا بندی اور زبان بندی دونوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کر دی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ریاست عمران خان کے ساتھ کسی تصفیے اور بات چیت کی ضرورت ہی نہیں سمجھتی۔
عوامی طاقت سے عمران خان کو جیل سے باہر نکالنے کے خطرے کا سدباب ریاست پہلے ہی کر چکی ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت اپنے ہی لوگوں کے حوالے کر چکی ہے۔ عمران خان کی کہانی اب جہاں ختم شد ہو چکی ہے اب وہاں اقتدار کے شریکے بھی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ دوسری جانب روس ، چین ، امریکہ اور انخے اتحادی وسطی ایشیائی ممالک میں مزید دلچسپی لے رہے ہیں اور طویل المعیادی عسکری اور سیاسی سرمایہ کاری کے ثمرات سمیٹنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیئے مزید تیز ہوگئے ہیں تو ایسے میں اقتداری شریکے ریاست کو ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہے ہیں۔ پختونخوا میں گورنر راج کے قیام کی گھنٹی بج چکی ہے اور عنقریب لا اینڈ آرڈر ، دہشت گردانہ کارروائیوں اور عوامی مذہبی پر تشدد واقعات کو جواز بناتے ہوئے تحریک انصاف کے پختونخوا حکومت کو فارغ کر دیا جائے گا۔
وزیر اعلی سردار امین گنڈاپور کا بچگانہ رویہ ، گورنر اور مرکز کے ساتھ غیر ضروری مخاصمت ، غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ طرز عمل اور بجلی کے مسائل کے حوالے سے واپڈا کی تنصیبات پر ان کی چڑھائی ریاست کو گورنر راج کے نفاذ کے لیئے کافی سے بھی زیادہ مواد فراہم کر رہی ہے۔ مدین سوات جیسے مزید واقعات ، پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں سیکیورٹی اداروں پر حملے اور پختونخوا کے طول و عرض میں سٹریٹ کرائم کے خاتمے کی آڑ میں ماورائے عدالت قتال جہاں سول شورش کی طرف صوبے اور ملک کو دھکیل رہی ہے وہاں گورنر راج کے نفاذ کے لیئے بھی راہ ہموار کر رہی ہے۔ آئیں کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کا ڈرامہ تو اس ملک میں کب کا بےنقاب ہوچکا ہے لہذا گورنر راج کے نفاذ کے احکامات پر کوئی منفی رد عمل کہیں سے بھی متوقع نہیں ہوگی۔
رہی بات تحریک انصاف کے قائدین کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی تو ریاست چند بچوں کی آنکھوں پر پٹی اور پاوں میں اعمال بد کی زنجیریں ڈال کر سیاسی میدان میں آنکھ مچولی کے لیئے ایک مخصوص وقت کے لیئے اتار چکی ہے اور ایک آواز پڑنے کی دیر ہے کہ کھیل ختم ، پیسہ ہضم اور ہر طرف خاموشی چھا جائیگی ۔ جس سے ہضم نہیں ہوسکا اس سے الٹی کروا دی جائیگی۔
واپس کریں