دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہبی کارڈ ،پسماندہ معاشرے اور اشرافیہ
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
وہ پسماندہ معاشرے جہاں خلق خدا پر اقلیتی اشرافیہ غیر انسانی حکمرانی کرتی ہیں وہ سماج اخلاقی انحطاط اور مذہبی بےراہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ جبر اور استحصال کے نظام میں مجبور انسانوں کا واحد سہارا مذہب ہی رہ جاتا ہے اور ایسے سماج عموما انتہائی مذہب پسند ہوتے ہیں۔ مذہب کی طرف انہیں اشرافیہ ایک منصوبہ بندی کے تحت دھکیلتی ہے جہاں انسانوں کو غلام رکھنے کے لیئے کثیر الجہتی جال بچھائے جاتے ہیں۔ عام مذہبی پیشوا عوام الناس کو حاکم وقت کی اطاعت کا درس دیتے ہیں ، خون آشام غربت اور غربت سے جڑی ہوئی المیوں کو مقدارات گردانتے ہیں جبکہ تمام انسانی ذلالتوں کو بعد از موت کی زندگی میں انعامات و اکرامات کا ذریعہ باور کراتے ہیں ۔ دوسرا جال تصوف یا روحانیات کا بچھایا جاتا ہے جہاں آدمی کی آدمیت کو بےعملیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے پر دعوت دین کے ہم رنگ زمین دام بچھائے جاتے ہیں جو انسانوں کو ترک دنیا کروا کر تمام تر خاندانی اور سماجی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک اور جھانسا بھی موجود ہوتا ہے جو جنت کو جہادی صراط مستقیم کے ذریعے پلک جھپکنے میں پہنچنے کا ہوتا ہے۔ اس درمیان جب خالص اور تخلیقی فکر کے علما صحیح مذہب کی طرف بلاتے ہیں تو ان علما پر کفر کے مختلف فتوے لگاتے ہوئے غیر فعال بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔ دین و مذہب کے نام پر پیر پرستی ، قبر پرستی ، بدعتیں اور مذہبی بےراہ روی اتنی عام ہوچکی ہے کہ اس کے خلاف صحیح اور مدلل مذہبی گفتگو بھی قابل گردن زدنی قرار پاتی ہے۔ عام غریب شہری کے پاس تو سوائے خدا کے اور کوئی دوسرا سہارا نہیں یوتا اور عام آدمی کی مذہبی استحصال کی بھی سمجھ آتی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اشرافیہ کیوں مذہبی اور پیر پرست ہوتی ہے؟
اسکی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو اشرافیہ مذہبی بہروپ بھر کر عوام الناس کے سامنے خود کو پاکیزہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور صائب کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مخالف انہیں مذہبی معاشرے میں غیر مذہبی قرار دیتے ہوئے ان کی اقتدار میں شراکت کو کہیں ختم نہ کر دیں۔ دوسری وجہ ثقافتی تسلسل میں کسی مرشد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تیسری وجہ اشرافیہ میں انفرادی طور پر بعض حاکموں کی ضیعف العتقادی ہوتی ہے جبکہ چوتھی وجہ نفسیاتی پیچیدگیاں ہوتی ہیں یا مسلسل مظالم ڈھانے کی وجہ سے جو نفسیاتی دباو اشرافیہ پر بن جاتا ہے اسکے سدباب کے لیئے پیر پرستی اور قبر پرستی جیسی بدعتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
ہمارے سیاست اور سیاسی اشرافیہ میں ایک کثیر تعداد تو بہ نفس نفیس گدی نشئبوں کی ہے لیکن باقی اکثریت بھی مذہبی توہمات کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے لیکر بےنظیر بھٹو تک اس کیفیت کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
واپس کریں