دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مدین سوات میں توہین قرآن کے واقعہ کے اصل حقائق
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ملک خداد میں سچ بولنا خودکشی کے مترادف ہے اور اسی خوف کی وجہ سے سچ کے سامنے آتے آتے پنڈ کے پنڈ جھوٹ کے ہاتھوں بھسم ہو چکے ہوتے ہیں۔ سیالکوٹ پنجاب سے آئے ہوئے سیاح سلیمان کو مدین سوات میں جس بےدردی سے بےقابو ہجوم نے زندہ جلا دیا وہ پاکستان کے ماتھے پر ایک اور سیاہ داغ کی صورت ثبت ہوچکا ہے۔ راقم الحروف کی شبانہ و روز تحقیقات کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ من و عن قائرین کے مطالعے کے لیئے پیش کیئے جاتے ہیں۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا مقتول سیاح ایک لکھا پڑھا اور باشعور شخص تھا جسے باہر کے دنیا کا بھی تجربہ تھا۔ مقتول سلیمان زندگی کے بارے میں اپنا مخصوص نقطعہ نظر رکھتا تھا اور علمی اور سنجیدہ بحث مباحثے کا شوقین انسان تھا۔ وہ ہر موضوع پر اپنا نقطعہ نظر ادب و آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے شائستگی کے ساتھ رکھنے کا عادی تھا۔ وہ بمعہ فیملی کے جس میں ان کی شریک حیات اور بچے شامل تھے گزشتہ کئی دنوں سے مدین کے اسی مقامی ہوٹل میں ریائش پزیر تھا جہاں اسکے خلاف یہ اندوہناک سازش تیار کی گئی۔ مقتول سلیمان ہوٹل کے ایک ویٹر سے عموما ہر موضوع پر بات چیت کرتا تھا اور اس بات چیت کے نتیجے میں مذکورہ ویٹر اس سے متنفر یوچکا تھا۔ واقعہ والے دن ناشتہ دینے کے دوران سلیمان کی ویٹر سے قربانی کے موضوع پر مباحثہ ہوا تھا اور رائے دی تھی کہ قربانی کے پیسوں کا صحیح مصرف یہی ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں کے فلاح و بہبود اور سیر و تفریح پر خرچ کیا جائے۔
مقتول سلیمان کا جرم بس اتنا ہی تھا جسے توہین اسلام بنا کر پیش کیا گیا۔ مقتول سلیمان کے یہ خیالات کیا توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں یہ بحث ہم علماء کرام کے لیئے رکھ چھوڑتے ہیں اور کہانی کو آگے بیان کرتے ہیں۔ ویٹر اس نقطعہ نظر کو دل پر لے بیٹھا اور اپنے بعض دوستوں سے رابطہ کرکے انہیں سلیمان کے خلاف بھڑکا دیا اور یوں ان کی نظروں میں اسے توہین کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کے لرزہ خیز انجام کے لیئے منصوبہ بندی کی گئی۔ اس ضمن میں باقاعدہ طور پر قاتلوں اور ہجوم کو بھی تیار کیا گیا اور بعض مقامی مذہبی جنونیوں کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا۔ باقاعدہ طور پر مساجد اور بازاروں میں اعلانات کا بندوبست کیا گیا اور ایک نجی گاڑی پر بھی لاوڈ سپیکر نصب کرکے اس سے مختلف بازاروں اور آبادیوں میں اعلانات کروائے گئے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق ایک منظم جھتے نے اسے ہوٹل کے کمرے سے مارنے کے لیئے باہر نکالا لیکن بعض مقامی لوگوں نے پولیس کو بروقت مطلع کر دیا۔ پولیس اگر چہ سلیمان کو آپے سے باہر نکلے ہوئے جھتے سے چھڑا کر پولیس سٹیشن مدین تو لے آئی لیکن ایس ایچ او حالات کے نزاکت کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ ایس ایچ او نے نہ تو بروقت سینئر حکام کو حالات سے آگاہ کیا اور نہ ہی مناسب حفاظتی اقدامات اٹھا دیئے۔
ہجوم کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوئی اور ہجوم میں سے منصوبہ بندی کے تحت ایسی آوازیں اٹھنے لگیں جس نے ہجوم کو پولیس تھانہ پر چڑھائی کرنے پر آمادہ کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد مقتول سلیمان کو بالآخر زبردستی مجمع تھانہ سے کھینچ کر بازار لے آیا ۔ لوہے کے بڑے بڑے راڈز کے ذریعے اس کی ایک ایک ہڈی توڑ دی گئی، اسے برہنہ کرکے لہولہان حالت میں سڑک پر کھینچتے رہے اور بالآخر اس مقام پر لے جاکر زندہ جلا دیا گیا جہاں پر اسکے جلانے کے لیئے پہلے سے لکڑیاں اکھٹی کی گئیں تھیں۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ مدین میں احتجاج اور مظاہروں کے لیئے جو روائتی مقامات مختص ہے یہ جگہ بالکل نئی دریافت تھی جس جگہ پر سلیمان کو زندہ جلایا گیا۔ چند دن قبل اسی مدین کے اسی بازار میں اور انہی مقامات پر میونسپلٹی کے اہلکاروں نے ایک آوارہ کتے کو صفائی کرنے والی گاڑی سے باندھ کر سلیمان ہی کی طرح گھسیٹا تھا جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور متعلقہ حکام نے اسکا نوٹس لیتے ہوئے مذکورہ ٹی ایم اے ملازمین کو معطل کیا تھا۔
جب سلیمان کو مارا اور گھسیٹا جارہا تھا تب اسکی زوجہ اور بچیاں رو رو کر ہجوم کو اسکے مسلمان ہونے کا بتاتے رہے اور اسکی زندگی کے لیئے بھیک مانگتے رہے۔ خود سلیمان بھی ہجوم کو بارہا اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتا رہا لیکن کسی نے ایک بھی نہ سنی۔ سلیمان کی بیوی تب سے لیکر تادم تحریر بےہوش ہے جبکہ اسکی بچیاں گنگ ہو چکی ہیں۔ بعد ازاں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ منصوبہ سازوں نے پولیس تھانے میں کھڑی اور جلی ہوئی گاڑی سے ایک سوختہ قرآن شریف نکالا جو گاڑی کا مالک تلاوت کے لیئے گاڑی میں رکھتا تھا اور ہجوم کے ہاتھوں وہ گاڑی بھی تھانے میں کھڑی ہوئی نزر آتش ہوئی تھی۔
اسی شہید سوختہ قرآن پاک کے ادھ جلے ہوئے اوراق کو سلیمان کے خلاف بطور توہین قرآن پیش کر دیا گیا جسکا سلیمان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ تحقیقات کے نتیجے میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ اس واقعہ کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی یا اسے کسی انٹیلیجنس ایجنسی نے ترتیب دیا تھا۔ نہ ہی کوئی ایسے ثبوت دستیاب ہوسکے جسکے نتیجے میں یہ باور کیا جائے کہ اس دلخراش سانحے کے پیچھے کسی مذہبی تنظیم کا کوئی ہاتھ تھا۔ یہ چند افراد کا ذاتی قبیح عمل اور مذہبی جنون تھا جنہوں نے اس سارے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جو اسی ہوٹل کے ایک ویٹر نے شروع کیا تھا جس ہوٹل میں سلیمان بمعہ فیملی کے قیام ہزیر تھا۔ مقامی پولیس اور مدین میں موجود تمام خفیہ ریاستی ادارے اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کہ یا تو وہ اسے نہیں روک سکے اور یا اپنے آپ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کو حکام کے کہنے پر وقوع پذیر ہونے دیا گیا کہ اس کو ریاستی مفادات کے لیئے نعمت غیر مترقبہ سمجھا گیا۔
واپس کریں