دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فطرت میں مداخلت کے تباہ کن ماحولیاتی نتائج
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
آج کا انسان جن جن تباہیوں کا سامنا کر رہا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی خالق کائنات کی نازل کردہ نہیں ہے بلکہ یہ قانون فطرت میں بےجا انسانی مداخلت کا شاخسانہ ہے۔ پاکستان خطرناک ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جسکے کثیرالجہتی نقصانات ہیں ۔ ان نقصانات کا ادراک آج بھی صحیح طریقے سے نہ ہی عوام کو ہے اور نہ ہی حکومت اس سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ قدرتی آفات ، فصلوں کی پیداوار میں کمی ، موسموں کی غیر فطری تبدیلی ، وبائی امراض اور نئی نئی بیماریوں کے جان لیوا حملے تو وہ بربادیاں ہیں جسے ہر کوئی دیکھ، سمجھ اور محسوس کرسکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے کرہ ارض کے دیگر زندگیاں صفحہ ہستی سے مٹتی چلی جارہی ہیں اور وہ چرند، پرند اور حشرات الارض جو ہمارے کرہ ارض کو زندگی کے قابل بنانے میں ہماری معاونت کر رہے تھے ہمارے ہاتھوں لائی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی نسلیں مٹتی چلی جارہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں پہلے ہلے میں ان تمام دوسرے جاندار زمین زادوں کو تلف کرتی جاتی ہے جو زندہ رہنے کا مقابلہ ہار جاتے ہیں۔
انسان کچھ دیر تک علاج معالجہ، خوراک اور دیگر جدید سہولتوں کی وجہ سے زندہ رہے گا مگر ایسی جنیاتی امراض میں مبتلا ہوگا کہ زندہ درگور ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں اب تک عوام تو ایک طرف خاص اذہان بھی ماحولیاتی مسائل کو مغرب کا چونچلہ قرار دے رہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی نے کامل حکمت کے ساتھ کائنات کی تخلیق کی ہے اور ایک خود کار عمل کے ذریعے مختلف جانداروں اور اشجار کو کرہ ارض پر زندگی کو ممکن بنانے کے لیئے مختلف فرائض تفویض کیئے ہیں جس میں وہ ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں بھرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر جاندار اور شجر کو تفویض کی گئی ذمہ داری میں اسی جاندار اور شجر کی زندگی اور بقا رکھی ہوئی ہے۔ اس کمال کو ملاحظہ کیجئے کہ کس جانفشانی اور احسان جتلائے بغیر کرہ ارض کا ذرہ ذرہ باہم مل کر کائناتی بقا کی ضامن بن چکی ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کونسے انسانی افعال اور اعمال تھے اور وہ کونسے عوامل تھے کہ کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے دوچار کیا۔ ہم اس حل کی طرف آتے ہیں جس پر دنیا کے تمام ماحولیاتی ماہرین متفق ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ کا متفقہ حل ماہرین کی نظر میں زیادہ سے زیادہ شجرکاری ہے جو بالکل درست حل ہے۔ دنیا بھر میں شجرکاری کے مہم زوروں پر چل بھی رہے ہیں اور خصوصا ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں شجر کاری پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک کے فہرست میں شامل ہے جسے ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ حکومت اور عوام دونوں شجرکاری کی طرف خوب متوجہ بھی ہیں اور اگر تمام کرپشنز اور سکینڈلز کو نظر میں رکھ کر بھی تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں شجرکاری میں کوئی کوتاہی نہیں بھرتی گئی ہے مگر نتائج پر بھی مایوس کن بلکہ صفر ہیں۔ جو غلطی پاکستان کر رہا ہے وہی غلطی عالمی سطح پر بھی دہرائی جارہی ہے۔ اب یہ علم کی کمی ہے یا سرمایہ دارانہ عالمی نظام کی کاروباری مفادات ہیں مگر یہ غلطی مسلسل دہرائی جارہی ہے۔
قانون فطرت نے ہر مٹی میں اسکے مزاج ، حالات اور جغرافیا کے مطابق اگنے ، پنپنے، پھلنے پھولنے اور زندگی کو قائم رکھنے کی صلاحیتیں عطا کی ہوئی ہے اور یوں بنا کسی محنت اور انسانی کاوش کے وہ اشجار اور پھل پھول اگتے اور زندہ رہتے ہیں۔ ان اشجار سے وابستہ دیگر زندگیاں بھی بھرپور ماحول میسر ہونے کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص کائناتی و ارضی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ بدقسمتی سے کچے پکے سائنس نے نت نئے کمرشل تجربات کرکے نئے اشجار، پھل، پھول اور سبزیوں کو متعارف کرایا اور دنیا بھر میں اسے پھیلا کر وہاں کے خود رو اور قدرتی نباتات کو ختم کردیا۔اس خاتمے کے ساتھ دیگر جانداروں کی زندگی کی ڈور بھی قطع ہوئی، انسانی زندگی پر اس کا منفی جینیاتی اثر ہوا اور ماحولیاتی تباہیوں سے بھی ان ممالک کو دوچار کیا۔
ہمارے ہاں پاکستان کے جس خطے میں بھی قدرتی خودرو اشجار تھے اب وہ ناپید ہوچکے ہیں اور اسکی جگہ کمرشل اشجار جیسے سفیدے، پاپلر، ڈیلٹا اور دیگر نے لی ہے جو ماحولیاتی تباہی کے باعث بنے ہیں۔ برصغیر میں حکمرانی کے زمانے میں انگریز نے بھی خارجی اشجار کو متعارف کرایا تھا جس میں شیشم خصوصی طور پر قابل ذکر درخت تھا جو برازیل سے منگوایا گیا تھا۔ انگریز نے مقامی مٹی کے مطالعے کے بعد اس سے میل کھانے والے درختوں کو منگوایا تھا جو کم و بیش ڈیڑھ سو سال کامیابی کے ساتھ چلتے رہے مگر اجنبی ہونے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے چلے گئے۔ اگر ہم واقعی پاکستان کو ماحولیاتی تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر خارجی اشجار کی کاشت پر پابندی لگانی ہوگی اور اگلے 5 سال میں مرحلہ وار موجودہ اشجار کو ختم کرنا ہوگا۔
دوسری جانب جنگی بنیادوں پر دیس کے دیسی اشجار کو دوبارہ سے کاشت کرنا ہوگا جو ہر بہار اور ساون میں خود رو عمل کے تحت لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اگتے ہیں اور ضائع کیئے جاتے ہیں۔ اپنے مقامی اشجار کو نہ کاشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دیکھ بھال مانگتی ہے۔ ان پر بیماریوں کے حملے بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی اسکی آبپاشی اور نہ ہی اسکو خوراک دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدارا آپ کچھ بھی نہ کریں بس مقامی اشجار کو زندہ رہنے کا موقع دیں ورنہ صفحہ ہستی سے مٹنے کے لیے تیار رہیئے۔
واپس کریں