دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قہر الہی سے عذاب ظل الہی تک کا بے معنی انسانی سفر
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ جو سفر منزل پر احتتام پزیر ہو تو زبردست۔ جو سفر پرکار کی طرح گھوم کر نقطعہ آغاز پر واپس آکر رک جائے پھر بھی کوئی بات نہیں۔ لیکن وہ سفر جو اچھے کی تلاش میں آگ اور خون کے دریا میں ڈبو دے تو بندہ بےاختیار چیخ اٹھتا ہے کہ کاش میں دونوں پاوں سے محروم ہوتا۔ انسانی ارتقا کا سفر بھی آگ اور خون کے دریا کو پار کرنا ثابت ہوا جس سے فرعون صحیح و سلامت دریا کے اس پار اتر گئے اور ہر موسی دریا برد ہوا۔ ارتقا کی کہانی بھی جنات کی آنکھ مچولی ہے۔ انسان کے مقابلے میں تمام حقیر اور بےتوقیر مخلوقات آسودہ زندگی گزارتے ہیں اور آخرت کے بوجھ سے بھی آزاد ہیں ۔
بنیادی وجہ شائد جسمانی نظام میں کسی بیماری یا حادثاتی چوٹ کا نتیجہ ہے۔ دماغ ماسوائے جیلی فش کے ہر جاندار کے جسم میں بارود کی طرح نصب ہوتا ہے مگر انسان کے اس تنصیب میں یا تو کوئی پیدائشی نقص واقع ہوا ہے اور یا کسی مہلک بیماری یا حادثاتی چوٹ کے نتیجے میں اس میں کوئی خرابی رونما ہوئی ہے۔ تب ہی سے انسان کے دماغ میں الٹے سیدھے خیالات آرہے ہیں اور نت نئے تجربات کے ذریعے زندگی کو جہنم بنا چکا ہے۔ انسان کو دنیا کے اولین ایام میں کوئی سنجیدہ پریشانی لاحق نہیں تھی۔
دیگر تمام جانداروں کی طرح جبلت پر زندہ تھا اور خوش تھا۔ قدرتی صاف ستھرے ماحول میں صرف تین خطرات سے سامنا تھا۔ قدرتی آفات، دیگر خونخوار مخلوقات کا ڈر اور طاقتور انسان کے آگے سرنگوں ہونا۔ زندہ رہنا زور بازوں پر تھا، جتنی محنت اتنا رزق۔ جنگل کا سماج تھا اور طاقت کی حکمرانی تھی۔ پھر انسان نے بولنا سیکھا اور دماغ چل پڑا۔ طاقت کی جگہ ہنر اور فنکاری نے لی۔ جبلت پر مصلحت حاوی ہوا۔ سچ جھوٹ کے ہزارہا پردوں میں چھپ گیا۔
استحصال کے نئے نئے ہنر ایجاد کردیئے گئے اور دھوکے اور فریب کو تعلیم و تربیت کا نام دیا گیا۔ منتشر انسانی طاقت کو منظم ریاست اور قوانین میں دو آتشہ کردیا گیا۔ کمزوروں کے خلاف طاقتوروں کے انجمن بن گئے اور سارے انجمنوں نے باہم مل کر ممالک، دنیا اور اقوام متحدہ بنا دی۔ جہاں جہاں انسانی آزادی کا ڈر تھا وہاں وہاں مذاہب اور عقائد کی اضافی زنجیریں پہنا دی گئیں۔ اصل کی نقل کرنے کی ٹھانی گئی۔ فطرت کو مادی صورت دیتے ہوئے پرندے سے جہاز بنا دیا، مچھلی ابدوز میں تبدیل ہوگئی اور آسمانی بجلی کو ایٹم بم میں بند کر دیا گیا۔
جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی ، جعل سازی ، نوسربازی اور استحصال کو سیاست اور سفارت کا لبادہ پہنایا گیا اور یوں نادیدہ جنت کی تلاش میں حقیقی جنت ارضی کو جہنم میں تبدیل کر دیا گیا۔ کیا دیا ارتقا نے بنی نوع انسان کو؟ بھوک، افلاس، غربت، جہالت، امراض، بد امنی، قتل و غارت، دہشت گردی، جنگیں، وبائیں، قدرتی آفات، تباہی، جنونیت، پاگل پن، بےرنگ زندگی، غلامی، زندہ لاشیں، خودکشیاں اور معاشرتی چھیر پھاڑ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " انسان کی بقا غاروں کو واپس لوٹنے میں ہے "۔
واپس کریں