دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پختونستان کا پھنسا ہوا گیئر اور گہری کھائیاں
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
صدیوں سے پختونستان کا پھنسا ہوا گئیر کھلنے کو ہے مگر ہر طرف گہری کھائیاں ہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتیں سن تیس کے کلنڈروں کے ذریعے تو پختونستان کی گاڑی کو منزل پر نہ پہنچا سکے مگر تحریک انصاف شائد انتقام کی بنیاد پر یہ پھنسا ہوا گیئر کھول دے۔ اگر پختونستانی گاڑی کا رخ افغانستان کی طرف موڑا جاتا ہے تو عین طالبانی گیراج میں جا کر رکی گی اور اگر ادھر ہی روکی جاتی ہے تو چھت پر عام عوام چڑھے ہوئے نظر آئینگے۔ وہ لوگ جو اشرافیہ کے پختونستان کے لیئے کوشاں تھے انہیں تو شکست یوجائیگی مگر وہ قوم پرست جن کے نعروں میں طبقاتی رنگ تھا وہ بھی غیر مطمئن ہونگے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بغیر سیاسی تربیت اور انقلابی تنظیم کے یہ کوئی قومی طبقاتی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ کچلے ہوئے طبقات ہر باعزت پشتون سے انتقام ہی لینگے۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھ لیجئے کہ جس سوچ کے لیئے سیاسی لوگوں نے اپنی زندگیاں قربان کی تھیں اب وہی لوگ پشتونستان کی راہ میں روڑے اٹکائینگے۔ اور ایسا کرنے میں وہ حق بجانب بھی ہونگے کیونکہ بندر کے ہاتھوں میں آئے ہوئے ماچس سے اپنا جنگل ہی جلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں عمران خان کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ محمود خان اچکزئی شائد پشتونستانی گاڑی کا رخ قندھار کی طرف موڑنا چاہتے ہیں کیونکہ اچکزئی افغانی طالبان اور قوم پرست دونوں افغان طبقات کو قابل قبول ہے اور عمران خان بھی افغان اور پاکستانی طالبان دونوں کو محبوب ہیں۔ اب یہ جنگ براہ راست عمران خان اور ریاست کے درمیان ہے جس میں فریقین کو سیاسی اور غیر سیاسی، اندرونی اور بیرونی قوتوں کا ساتھ حاصل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تمام علیحدگی پسند پشتون قوم پرست قوتوں کو اب اپنی بقا پاکستان میں نظر آتی ہے۔ پشتون اب پنجابیوں کے ساتھ برابر کے استحصال میں شریک ہیں اور دونوں کے پاس عمران خان کا کوئی علاج ماسوائے اتفاق و اتحاد کے نہیں ہے۔
ریاست اب پاکستان کی سالمیت اور بقا کی لڑائی انہی سیاسی قوتوں کے ذریعے لڑی گی اور چاہے نتائج کچھ بھی ہو مگر آخری فائدہ اور فتح ریاست کی ہوگی جبکہ تمام تر نقصانات سیاسی قوتیں اٹھائیں گی۔ اب شائد سیاسی جماعتوں کو بھی احساس ہو جائے کہ نظریاتی کارکن اور عظیم سیاسی اذہان ہی سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں سیاسی جواری مولانا فضل الرحمان بہت بری طرح سے ہارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ اچانک اس فاسٹ بولر کی طرح ہوگئی کہ جب کھیل عروج پر تھا اسکا پھٹہ یا چڑھ گیا اور یا چڑھا دیا گیا۔ مولانا صاحب کو بلاوجہ افغان طالبان اقتدار میں شریک نہیں کرسکتے اور پاکستان اور خصوصا پشتون بیلٹ میں جمعیت علمائے اسلام کا جنازہ عمران خان نکال چکے ہیں۔
پاکستانی ریاست سردست مولانا کو سیاسی تذبذب اور اضطراب میں مختلف لولی پاپ دکھا کر تب تک کے لیئے رکھنا چاہے گی جب تک سیاسی اونٹ کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھ جاتا۔ آنے والے دنوں میں مرکز اور پختونخوا کے درمیان بڑھتا ہوا خلیج واضح طور پر نظر آرہا ہے جو کسی انقلاب کی بجائے انتشار کی طرف لیکر جائے گا جسکا فائدہ صرف اور صرف ریاست کو ہوگا کہ پختونخوا مکمل طور پر غیر سیاسی ہو کر چھاونی میں بدل جائے گا۔ خس کم جہاں پاک۔ یہ لڑائی ریاست جیتتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ قوم پرست سیاسی نابالغ اور بونے پھر شائد تاریخ میں بھی نہ ملے۔
واپس کریں