خالد خان۔ کالم نگار
ہموار زندگی کے لیئے جھٹکا ضروری ہوتا ہے۔ جھٹکا زلزلے کا ہو تو قیمتی پھتروں سے نوازتا ہے اور فورا اللہ کو بھی یاد دلاتا ہے۔ جھٹکا اگر جانور کو ذبح کرنے کے لیئے ہو تو انسانی وجود کو پروٹین سے مالا مال کرتا ہے۔ جھٹکا اگر مہنگائی کا ہو تو شعور کو جگاتا ہے۔ جھٹکا اگر پھانسی کے تحتے پر دیا جائے تو انصاف کا بول بالا کرتا ہے۔
جھٹکوں کے ویسے تو سینکڑوں اقسام ہیں اور اسی طرح انکے فوائد اور نقصانات بھی ہیں لیکن جھٹکوں کا شہنشاہی جھٹکا بجلی کا جھٹکا ہوتا ہے۔ بجلی کا جھٹکا جب دیوانے کو لگتا ہے تو وہ عقل و خرد کی دنیا میں لوٹ آتا ہے۔ یہی بجلی کا جھٹکا جب سوئی ہوئی غیر سیاسی اور شعور سے عاری قوم کو لگتا ہے تو انقلاب کی نوید ثابت ہوتا ہے۔ اس ملک میں جہاں انقلاب اور سیاسی شعور کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہاں بجلی کے جھٹکے نے انقلاب کی لہر دوڑا دی ہے۔ انقلاب کی امید تو بہرحال نہیں کی جاسکتی کیونکہ انقلاب کے لیئے سیاسی قائدین، سیاسی جماعتوں اور انکی فعال تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں عنقا ہیں۔ ایک تو سیاسی قائدین جو اشرافیہ کا حصہ ہے اس دگرگوں ملکی معاشی حالت کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ دوسری برہنہ حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاسی اشرافیہ کا اپنا مفاد بھی اسی عوامی غربت میں مضمر ہے۔ یوں بجلی کے بلز کے جھٹکے نے عوام کو جھنجوڑا تو ضرور ہے لیکن یہ انتشار انقلاب میں بدلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے البتہ یاسیت اور لاقانونیت پر ضرور منتج ہوگی۔
سیاسیات کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ جب قوم بھپر جاتی ہے اور انقلاب کا سماں بندھنا شروع ہوجاتا ہے تو اسی غوغا میں سیاسی اور انقلابی راہنما بھی اپنے آپ جنم لیتے ہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ اب اس قوم میں مزید کسی بھی جبر کے سہنے کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔ اشرافیہ نے اس ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ واپسی کے سبھی رستے مسدود نظر آتے ہیں۔
آئی ایم ایف جس سے لوگ نالاں رہتے تھے وہی آئی ایم ایف مجھے قائد انقلاب دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ غیر انسانی معاہدے کیئے اور ریاست نے ان معاہدوں پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرا دی۔ اس وعدے کو ایفا کرنے کے لئے ملک پر من پسند نگران مقرر کر دیئے جو تین سال سے قبل کرسی چھوڑتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ہر معاہدے پر من و عن عمل ہوگا اور عوام کی چیخیں آسمانوں تک جاتی ہوئی سنائی دینگی۔
ہم چاند پر راکٹ کو نہیں بھیج سکتے مگر عوام کی چیخوں کو چاند سے بھی اوپر تو بھیج سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے انقلاب کی امیدیں راقم الحروف گزشتہ کئی عشروں سے باندھے ہوئے ہے جو اب کہیں جاکر بار آور ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
بجلی کی بلز کی عدم ادائیگی پر جسطرح عوام ایک خود کار نظام کے تحت متفق اور متحد ہو رہے ہیں اور جس بےخوفی کے ساتھ نکل رہے ہیں تو محتاط اندازے کے مطابق یہ عمل سول نافرمانی کا پیشہ خیمہ دکھائی دے رہا ہے۔ بجلی کا جو جھٹکا عوام کو لگا ہے اس کی برقی رو اشرافیہ کے محلات کو خاکستر کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتی ہے اور متسقبل کئی شدید جھٹکے اپنے کوکھ میں پالتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
کیا آئی ایم ایف امام انقلاب کے در پردہ کردار ادا کرنے کی تیاری کرچکا ہے؟
واپس کریں