دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انقلاب ختم شد
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
انقلاب ایک سائنس ہوا کرتا تھا جسے سماجی سائنٹسٹس فنکارانہ سلیقے سے برپا کرتے تھے۔ انقلاب کی بنیادی ضرورت تبدیلی کے لیئے سماج کے نفسیات سے مطابقت رکھتے ہوئے ایک واضح نظریہ ہوتا تھا ۔ اگلے مرحلے میں نظریاتی قیادت، مضبوط تنظیم اور کارکنان ہوتے تھے جنہیں سیاسی اصطلاح میں "کیڈر" کہا جاتا ہے۔ انقلاب کے لیئے موروضی اور معروضی حالات کا حق میں ہونا بھی بہت ضروری ہوتا تھا ۔ پاکستان میں انقلاب کے نام پر ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کی دلالی اور نوسربازی کی گئی ہے۔ لفظ انقلاب کو دیدہ دانستہ اتنا بدنام کردیا گیا کہ انقلابی سیاسی طوائف سمجھے جانے لگے۔ پاکستان میں ہر انقلاب کی حقیقت صرف چند جذباتی نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کہیں بھی انقلابی نظر نہیں ائینگے ہاں انقلابی غبارے ہر طرف ڈولتے ہوئے نظر ائینگے جن سے ہوا نکلنے کی دیر ہوتی ہے اور انقلاب ختم شد۔
انقلاب کسی بھی سماج کے بنیادی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنے کا عمل ہوتا ہے لیکن یہاں اس ڈھانچے پر رنگ و روغن اور چند غیر حقیقت پسندانہ نعروں کی بورڈز آویزاں کرنے کے عمل کو انقلاب کہا جاتا ہے جو بذات خود انقلاب کے خلاف ایک سازش ہے۔ انقلابی کا مطمع نظر صرف انسانیت کی سربلندی اور زیر دست طبقات کو باعزت زندگی دینے کا مشن ہوتا ہے جس میں سوائے انقلاب کے تمام دیگر نظریات اور تصورات قربان کیئے جاتے ہیں مگر وطن عزیز میں اسکے برعکس انقلاب 22 چاٹ مصالحہ بن چکا ہے جو حسب موسم اور حسب ذائقہ پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کا انقلاب بھی گول گھپے سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس سے نوجوان منہ کا ذائقہ بدلتے ہیں کیونکہ سماج کے باسی سیاسی ہانڈی سے اب انہیں ابکائیاں آتی ہیں۔ عمران خان نہ تو بذات خود انقلابی تھے اور نہ ہی انہیں انقلاب کی ابجد کا پتہ تھا۔ جماعت اسلامی اور جنرل حمید گل کے پمپس انقلابی ہوا بھرواتے بھرواتے بالاخر اس کی ٹنکی جنرلز گیس ان لیمیٹڈ سے بھروا دی گئی اور ایک نشیب کو انقلاب کا منزل بتاتے ہوئے اسے دھکا دے دیا گیا۔ دھکہ دینے سے قبل اس کی چاند گاڑی کو سواریوں سے بھر دیا گیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بھی اپنے ڈرائیورز بھٹا دیئے گئے۔ پاکستان کی اس گہری سیاسی کھائی کو اب صدارتی طرز حکومت اور چائنہ ماڈل کے باقیات سے بھر دیا جائیگا اور یوں ایک مضبوط عامرانہ طرز حکمرانی کا آغاز ہو جائے گا جسے روکنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا۔
چین ، روس اور امریکہ کے مفادات بھی آپس میں نہیں ٹکرائینگے کہ پاکستانی ریاست کے مضبوط بازوں بطور شاک ابزرور کام کرینگے۔ سب کو حصہ بقدر جثہ ملے گا اور اقتصادی راہداریوں کے پرامن قافلوں کی ضمانت گشت پر مامور ہمارے چاق و چوبند ایٹمی دستے دینگے۔ سب کا بھلا سب کی خیر۔ دبئی طرز کے مساجد اور کلبس دونوں ہونگے اور جس کی جہاں مرضی ہو جایا کرے۔ ٹول پلازوں کے ٹول ٹیکس سے اتنی آمدن ہوگی کہ سب کی سکھ سے گزری گی۔ صبح ناشتہ لاہور میں تو دوپہر کا کھانا کابل اور ڈنر تاشقند میں ۔ برائے نام سیاسی اشکال کے لیئے نرسری میں کھیپ تیار ہے۔ پرانے سیاسی پاپی نئے نظام کے قیام میں خدمات سرانجام دے کر اپنے پاپ دھلوائینگے اور باقی ماندہ زندگی شانتی سے جہاں مرضی ہو گزار لینگے۔
رہی بات عمران خان صاحب کی اور انکی تحریک انصاف کی تو وہ بلبلہ کبھی بھی پھٹ جائے گا اور اس دھماکے میں سب سے اونچی آوازیں بہنوں اور زوجہ کی گواہیوں کی ہونگی جو سلطانی ہونگی۔ برسات کی شام سے تھوڑے پہلے جن چیونٹیوں کو پر عطا کیئے گئے تھے وہ تو ویسے بھی قہر خدا کا شکار ہوچکے تھے سو حس کم جہاں پاک اور انقلاب ختم شد۔ اگر واقعی ایسا ہی ہوگا تو یہ کوئی برا سودا تو نہیں ہے۔ بس صرف ایک داغ باقی رہے گا اور وہ یہ کہ پشتونوں کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف مذہبی غنڈوں کی حیثیت دی جائی گی تاکہ تمام مستفید ہونے والی قوتوں کو برابر دباو میں رکھا جاسکے۔ انقلاب اگر خوشحالی کے دریا بھی بہا دے گا مگر وہی پشتو کہاوت کہ " اگر دریا اٹھ اٹھ کر بھی بہے تب بھی کتے کا مقدر صرف تر زبان ہی ہوا کرتی ہے۔"
واپس کریں