دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مودی کی بڑھکیں سیاسی سٹنٹ کے علاؤہ کچھ نہیں
ناصر بٹ
ناصر بٹ
کچھ لکھنے سے پہلے کوشش کرتا ہوں کہ جس موضوع پر لکھا جائے اسکی کم از کم بنیادی معلومات تو حاصل کی جائیں۔دو تین دن سے اس ادھیڑ بن میں تھا کہ انڈیا کی طرف سے دریائے سندھ ،جہلم اور چناب کا پانی روکنا ممکن ہے یا بس ایک جزباتی نعرہ ہے جو مودی سرکار نے انڈین عوام کو لالی پاپ کی صورت میں تھما کر انہیں پہلگام واقعے پر اپنی نااھلی سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا ہے۔۔
جو کچھ میں جان پایا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان تو ان دریاؤں کا پانی روکنے پر جو ردعمل دے گا وہ الگ بحث ہے انڈیا کی یہ بڑھک سوائے ایک بکواس کے کچھ نہیں۔
خطے میں بہنے والے ان دریاؤں کی عمر ہزاروں سال ہے جب شاید ان ملکوں کی وجود بھی نہیں تھا جو آج ایک دوسرے سے پانی پر جھگڑ رہے ہیں۔
یہ دریا بہتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ ان سےسیراب ہونے والا کوئی ھندو ہے یا مسلم دریا کے بہاؤ کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ راستے میں کوئی مسلم ملک آتا ہے یا ھندو سٹیٹ۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کی جو تقسیم ہوئی تھی اس میں اعداد و شمار کے مطابق جو دریا انڈیا کا حصہ مانے گئے تھے وہ راوی بیاس اور ستلج تھے جبکہ چناب جہلم اور سندھ دریا پاکستان کے حصے میں آئے
انڈیا کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں میں کوئی 33 ملین ایکڑز پانی بہتا ہے جبکہ پاکستان کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں میں کل 113 ملین ایکٹر پانی بہتا ہے۔
انڈیا کے پاس ان دریاؤں کے علاؤہ بھی گنگا،جمنا جیسے بڑے دریا موجود ہیں جن کا ماخذ چین ہے۔
انڈیا پاکستان کے ساتھ واٹر ٹریٹی سے جن تین دریاؤں کا حقدار بنا تھا اسکے کل پانی کا ابھی تک 90 فیصد پانی یا تو سٹور کر پاتا ہے یا اسے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے یعنی ابھی ان دریاؤں کے 33 ملین ایکڑ پانی کا بھی اسکے پاس مکمل سٹوریج نہیں ہے جبکہ وہ بات کر رہا ہے دریائے سندھ کے 113 ملین ایکڑ پانی کو روکنے کی۔
سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر انڈیا پاکستان کا پانی مکمل طور پر روک سکتا ہے تو پھر ہر سال دریائے بیاس میں آنے والے طغیانی سے ہماچل پردیش،ہریانہ اور مشرقی پنجاب کے کئی حصوں میں سیلاب سے تباہ کاریاں کیوں ہوتی ہیں انڈیا اسے روک کیوں نہیں لیتا۔
اسی طرح گنگا اور جمنا دریاؤں میں بھی مون سون کے بعد جو سیلاب آتے ہیں انہیں بھی روکنا ممکن نہیں ہوتا ہر سال اس سے بہار اور بنگال میں سیلاب سے تباھی ہوتی ہے اور پھر یہ پانی بنگلہ دیش جاتا ہے مگر انڈیا بنگلہ دیش کا پانی بھی روکنے کی بات کر رہا ہے۔
اگر انڈیا دریائے سندھ کے پانی کو روکنا چاھتا ہے تو اسے بھاکڑہ،پونگ اور رنجیت ساگر ڈیم جیسے بڑے سائز کے تیس ڈیم بنانے ہونگے جن پر لاگت کا تخمینہ کھربوں ڈالر ہو سکتا ہے اور پھر اگلے سال یہ ڈیم بھی کم پڑ جائیں گے کیونکہ مزے کی بات یہ ہے کہ انڈیا کو اتنے پانی کی ضرورت بھی نہیں ہو گی ایسا اسے صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کرنا ہو گا۔
کیا آپ کو یہ عقل پر مبنی کوئی بات لگتی ہے؟
قدرت نے جو چیزیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں ان میں رزق کی تقسیم بھی شامل ہے اور قدرت کا یہ نظام یونہی چلتا آیا ہے اور یونہی چلتا رہیگا مودی کی بڑھکیں ایک سیاسی سٹنٹ کے علاؤہ کچھ نہیں۔
اس موضوع پر انڈیا کی احمقانہ بیان بازی پر خود انڈیا میں ایک دلچسپ بحث شروع ہو چکی ہے اور انڈیا کے کئی نامور صحافی اور دریاؤں کے ایکسپرٹس مودی جی کا خوب مذاق بنا رہے ہیں ۔
واپس کریں