دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فلم بنے گی بھی اور چلے گی بھی
ناصر بٹ
ناصر بٹ
فلم عام آدمی کے لیے جہاں سستی تفریح کا ایک ذریعہ تھا وہاں اسے فیملی کے ساتھ گھر سے نکل کر کچھ اچھا وقت گزارنے کا موقع بھی مل جاتا تھا۔بے شمار نئے آپشن آنے کے باوجود میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے کی تفریح آج بھی ایک شاندار تفریح ہے مگر افسوس کہ یہ تفریح اب عام آدمی تو درکنار اچھے خاصے اپر مڈل کلاس کی پہنچ سے بھی دور ہو چکی ہے۔
پاکستان میں ہم گلہ تو کرتے ہیں کہ یہاں اب اچھی فلم نہیں بن رہی مگر کبھی گہرائی کے ساتھ اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسکی وجوہات کیا ہیں۔
ماڈرنائزیشن کے شوق میں ہم نے جس طرح اور کئی چیزوں کا بیڑہ غرق کیا ہے اور آج نہ تیتر رہے ہیں نہ بٹیر اسی طرح کا سلوک ہم نے اپنے سنیماز کے ساتھ بھی کیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ہماری لو بجٹ موویز بھی ہاؤس فل ہوا کرتی تھیں اور فلم کے فلاپ یا کامیاب ہونے کا فیصلہ کچھ روز بعد ہوا کرتا تھا مگر آج یہ صورتحال ہے کہ کوئی فلم دیکھنے جانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا کامیابی اور ناکامی تو بعد کی بات ہے۔
ہم نے سنیما ھاوسسز میں سہولتوں کا رونا رو رو کر وہ تمام سنیما گھر بند کروا دیے جہاں عام آدمی فلم دیکھنے کی استطاعت رکھتا تھا پرانے سنیما گھر زیادہ گنجائش والے ہوتے تھے اور ٹکٹ کی قیمت کافی کم ہوتی تھی جو عام آدمی کی جیب پر کوئی بڑا بوجھ نہیں بنتی تھی اسطرح سنیما گھر نقصان میں نہیں جاتے تھے اور عام آدمی فلم بھی دیکھ پاتا تھا مگر پھر ہماری ایلیٹ کلاس نے سنیما گھروں میں فرسٹ ورلڈ ٹائپ سہولتوں کا رونا شروع کر دیا کبھی انہیں نشستوں کے غیر معیاری ہونے کا شکوہ ہوتا تھا تو کبھی سنیما گھر کا اے سی انہیں پسند نہیں آتا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ پوش علاقوں میں بننے والے نے نئے سنیما گھر وجود میں آنے لگے اور پھر دیکھا دیکھی پرانے سنیما گھروں کی جگہ بھی ملٹی پلییکس سنیما گھر بن گئے جہاں سو سو نشستوں والی چار چار سکرینز نصب ہو گئیں اور ٹکٹ کی قیمت آٹھ سو سے پندرہ سو تک پہنچ گئی۔
سلطان راہی کا قتل ہوا تو آدھی فلم انڈسٹری ویسے ہی بیٹھ گئی کہ یہاں بے شمار ھدایتکار ایسے تھے جنہیں فلم ہی سلطان راھی کی بنانا آتی تھی مگر اسکے باوجود فلم بن سکتی تھی پر برا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے وسائل کو سمجھے بغیر بھارتی فلم انڈسٹری کی مثالیں دے دے کر جو بچا تھا وہ بھی لٹا دیا۔
پچھلے دنوں فلم کے مصروف ترین ہدایتکار اور ہمارے دوست Ali Sajjad Shah سے اس بارے کافی تفصیل سی گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے یہ کہا کہ ابتدا میں فلم کا بجٹ کم سے کم رکھ کر ہی فلم بزنس کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے چار پانچ کروڑ میں بننے والی فلم اگر چھ سات کروڑ کا بزنس بھی کر لے گی تو منافع بخش ہو گی مگر جو آپ فلم کا بجٹ بڑھا کر پچیس تیس کروڑ پر لے جائیں گے تو بیس کروڑ کما کر بھی فلم فلاپ اور نقصان میں ہی ہو گی اور کوئی بھی پروڈیوسر ایسا بار بار نہیں کریگا۔
کانٹینٹ مضبوط ہو،اچھی موسیقی پر توجہ دی جائے تو کم بجٹ میں بھی اچھی فلم بنانا ممکن ہے مگر اسکے لیے جس آرٹ سینس اور مہارت کی ضرورت ہے پہلے وہ پیدا کرنا ہو گی۔
چند سال میں اگر علی سجاد شاہ مردہ فلم انڈسٹری میں اٹھارہ فلمیں بنا چکا ہے تو ایسا کوئی اور کیوں نہیں کر سکتا؟
ابو علیحہ کے فلمی نام سے اس فلم ڈائریکٹر کا یہ کمال کیا کم ہے کہ اس نے نیم مردہ فلم انڈسٹری کو ابھی تک مکمل مردہ ہونے سے بچایا ہوا ہے؟
اور پھر انکی فلموں میں شاذ ہی کسی پروڈیوسر کو نقصان ہوا ہو کیونکہ انکا فارمولا بھی لو بجٹ فلم ہی ہے۔
سنے پلیکس کے پرچارک فلم پنڈتوں کی عقل میں یہ بات کبھی نہیں آ سکتی کہ فلم کو کامیاب اور ناکام عام آدمی یعنی لوئر مڈل کلاس طبقہ بناتا ہے جن کے لیے آپ نے فلم کے دروازے ہی بند کر دیے ہیں۔
زیادہ تر سنیما گھر تو اب پلازوں اور دیگر مختلف قسم کی عمارتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں مگر اب بھی ہر شہر میں کئی سنیما گھر ایسے موجود ہیں جن کو بحال کر کے پاکستانی فلم کے مردہ جسم میں جان ڈالی جا سکتی ہے۔
حکومت فلم کی بحالی کے لیے فنڈز رکھ رہی ہے پچھلے دنوں مریم نواز نے کہا تھا کہ بھارتی پنجاب جو پاکستانی پنجاب سے کافی چھوٹا ہے وہاں اگر معیاری پنجابی فلمںیں اور موسیقی بن رہی ہے تو یہ پاکستانی پنجاب میں کیوں نہیں ہو بن سکتیں انہوں نے فلم اور موسیقی کے لیے پنجاب حکومت کی طرف سے بجٹ میں رقم مخصوص کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
میری چیف منسٹر سے گزارش ہے کہ فلم کے لیے بجٹ مخصوص کرنا خوش آئیند ہے مگر آپ کو ساتھ ساتھ یہ بھی کرنا ہو گا کہ یہ بجٹ درست ہاتھوں میں جائے مطلب ان ہاتھوں میں جو صرف بجٹ ھتھیانے کے لیے ہی میدان میں نہ آئیں انکے پیش نظر اچھی فلم پیش کرنا اور فلم انڈسٹری کی بحالی ہو۔
بھارتی پنجاب کی فلم ایک عرصے سے سٹوڈیو سے نکل کر حقیقی لوکیشنز پر بنائی جا رہی ہے ،پنجاب کے دیہاتی کلچر کو دیہاتوں میں جا کے فلمایا جا رہا ہے،موسیقی میں بھی پنجاب کا اصل روایتی میوزک سامنے لایا جا رہا ہے بھارتی پنجاب نے پنجاب کلچر کو ایک برانڈ بنا دیا ہے جو اتنا بڑا برینڈ بن گیا ہے کہ اب بالی ووڈ کے امتیاز علی جیسے ڈائریکٹرز بھی پنجاب کے ایک فوک گلوکار امر سنگھ چمکیلا پر فلم بنانے پر مجبور ہو گئے ہیں ہر چند کہ انہوں نے فلم ھندی زبان میں ہی بنائی ہے مگر فلم میں پیش کیا گیا سارا کلچر پنجاب کا ہی تھا اور پنجابی میوزک کی اٹھان یہ ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا موسیقار اے آر رحمان اس فلم کی میوزک دے رہا ہے اور سب سے بڑی بات کہ اسے دنیا کا سب سے بڑا او ٹی ٹی پلیٹ فارم یعنی نیٹفلیکس ریلیز کر رہا ہے۔
پنجابی فلم کے ساتھ ساتھ ہماری اردو فلم بھی ایک شاندار ہسٹری رکھتی ہے اسکی بھی دوبارہ بحالی کرنا ہو گی۔
مگر سب سے پہلے ہمیں اپنے روایتی سنیما گھروں کو بحال کرنا ہو گا تاکہ بننے والی فلموں کو سکرینز تو میسر آ سکیں۔
حکومت اگر ان سنیما ھاؤسسز کی بحالی کے لیے بھی کچھ فنڈز دے دے یا انہیں نرم شرائط پر قرضے دے دیے جائیں تو یہ اس سلسلے میں بہت معاون ہو سکتا ہے۔
عام آدمی کو شامل کیجیے فلم بنے گی بھی اور چلے گی بھی۔
واپس کریں