دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آج منظر بھی اسٹیبلشمنٹ ہے اور پسِ منظر بھی
ناصر بٹ
ناصر بٹ
نواز شریف نے لگ بھگ تین دھائیوں تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی اور ہم اسکے ہمرکاب رہے۔جب نواز شریف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کر رہا تھا تو اس وقت اسکی تمام مخالف پارٹیاں اسکے خلاف الزامات لگانے،سازشیں کرنے اور طعنےطعنے دینے میں مصروف تھیں اور اسٹیبلشمنٹ کا دست و بازو بن کے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔
وہ تمام لوگ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے کر تین دفعہ اسے گرانے میں کامیاب بھی رہے نواز شریف کو البتہ پرفارمنس کا جو ایج حاصل تھا اسکے بل پر وہ تین دفعہ وزیراعظم بننے میں کامیاب رہا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کے نواز شریف کو تیسری دفعہ گرانے میں کامیابی 2017 میں حاصل کی گئی جس کے بعد نواز شریف اور ن لیگ پر ابتلا کا دور شروع ہوا جو عمران نیازی کے پورے دور حکومت میں جاری رہا۔
اس دوران جو کوئی بھی پی ٹی آئی کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کی سگی نہیں اور پی ٹی آئی کو مخالف سیاسدانوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاھیے تو انکا کہنا ہوتا تھا کہ یہ تمام لوگ جو انکے مخالف ہیں وہ چور ہیں،ڈاکو ہیں اور غدار بھی ہیں ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے انکی فائلیں دکھائی ہیں۔
پی ٹی آئی کے لیڈران کا اس وقت یہ بھی کہنا ہوتا تھا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے،عدلیہ انکے خلاف دلیری سے فیصلے کر رہی ہے انہیں عدالتوں نے گاڈ فادر کہا ہے اور یہ کہ ان سب کو فکس کرنا عدلیہ کا بڑا کارنامہ ہے۔
ن لیگ کے خلاف خاص طور پر عمران نیازی کا رویہ توہین آمیز تھا اسے پرفارمنس سے کوئی غرض نہ تھی وہ اسٹیبلیشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر صرف ایک کام کرتا تھا کہ مخالف سیاسی جماعتوں کو اور انکے لیڈران کو کیسے نمونہ عبرت بنایا جائے۔
نواز شریف اس سے پہلے بھی دو دفعہ اسٹیبلشمنٹ کا گھیرا توڑ کے نکل چکا تھا تیسری دفعہ بھی نواز شریف اس میں کامیاب رہا اس دفعہ مگر اسکی خرابی صحت اسے نکال کر لے گئی اور وہ لندن جا کے بیٹھ گیا۔
جہاں نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ بارے موقف ہمیشہ سخت اور بے لچک رہا تھا وہاں انکے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے بارے سوفٹ کارنر ہمیشہ قائم تھا نواز شریف کے ملک سے باہر جاتے ہی ن لیگ کی کمان شہباز شریف کے سپرد ہوئی تو ن لیگ کا ایک اور دور شروع ہوا جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت معاملہ کرنے کا آغاز ہوا۔
آج جو ن لیگ آپ کو نظر آ رہی ہے وہ ماضی کی نواز شریف کے زیر قیادت ن لیگ سے یکسر مختلف ہے۔
یہ ن لیگ نہ صرف حکومت کے ہائیبرڈ ماڈل کو تسلیم کر چکی ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تنازعے میں الجھنا نہیں چاھتی۔
اس ن لیگ کو علم ہے کہ اس وقت ملک کی کوئی بھی پارٹی ایسی نہیں جو وہی کام کرنے کو بےقرار نہیں جو ن لیگ اس وقت کر رہی ہے میں پرفارمنس کی بات نہیں کر رہا صرف اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی بات کر رہا ہوں۔
شہباز شریف حکومت کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ معیشت کی بحالی کا تھا جس میں شہباز شریف بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے اور پاکستانی معیشت ٹریک پر آ رہی ہے اور یہ بات پی ٹی آئی کے بھی علم میں تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ن لیگ کی معیشت بحالی کوشش کو ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش بھی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی تین دھائیوں میں جہاں نوازشریف نے بے شمار کامیابیاں سمیمٹیں اور ملکی ترقی میں شاندار کردار ادا کیا وہاں اس راستے میں انہوں نے بے شمار مشکلات بھی برداشت کیں قیدوبند،جلاوطنی کے ساتھ ساتھ انہیں شدید قسم کی ریاستی کردارکشی کا بھی سامنا رہا یہ راستہ بیک وقت کبھی خوشی کبھی غم والا تھا مگر آخر میں نواز شریف جو چیز برداشت نہ کر سکا وہ اپنی اہلیہ کی وفات تھی اور انکے وقت نزع پر انکے ساتھ نہ ہونے کا دکھ تھا جس سے نواز شریف آج تک باہر نہ آ سکا۔
ن لیگ کے ساتھ بے شمار لوگ نوازشریف کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی وجہ سے بھی جڑے تھے ان لوگوں میں سے آج بھی کئی لوگ ن لیگ سے وہی توقعات رکھتے ہیں جو نواز شریف کی زیر قیادت ن لیگ میں پوری کی جاتی رہی تھیں انہیں ن لیگ کی موجودہ اور ماضی کی سیاست میں فرق کرنا ہوگا آج ن لیگ ایک بالکل مختلف سیاسی جماعت ہے جو معاصر سیاسی جماعتوں کے طرز عمل کو دیکھ کر اپنی سیاست اسکے مطابق ڈھال چکی ہے۔
جہاں اس سیاست میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ رومانس موجود نہیں وہیں اب ن لیگ اب اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی مشکلات سے باھر نکل کے صرف اور صرف پرفارم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جو شہباز شریف کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل میں الجھنے کی بجائے انکا تعاون حاصل کر کے پوری توجہ کام پر رکھی جائے۔
مجھے ہنسی آتی ہے جب مخالفین سوال کرتے ہیں کہ نوازشریف کا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کہاں گیا میرا ان لوگوں سے سوال ہے کہ آپ نے اس نعرے کو قبول کب کیا تھا؟
کب آپ نے نوازشریف کے اس نعرے کو حقیقت سمجھا تھا؟
آپکا تو اس وقت یہی کہنا تھا کہ اقتدار سے بے دخل ہونے کی وجہ سے یہ ڈھکوسلا رچا رہا ہے۔
آپکا موقف تو نوازشریف کی پوری سیاست جس میں اس نے اپنی تین حکومتوں کی قربانی دی،مشکلات بھگتیں، یہی رہا کہ نوازشریف ضیاء کی باقیات ہے،فراڈیا ہے چور ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا ڈرامہ کرتا ہے۔
اسی نواز شریف سے اب یہ سوال کیسا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کدھر گیا؟
کچھ حیران کن نہ ہوا تو نوازشریف اپنی سیاسی اننگز کھیل چکا جس پوری اننگز میں آج جمہوریت کے چیمپئنز اسے نیلسن گوالمنڈیا کہہ کر یاد کرتے رہے،اسکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بے مثال جدوجہد کا مذاق اڑاتے رہے آج اسے یاد کرنے یا طعنہ زن ہونے کا کوئی فایدہ نہیں یہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ نوازشریف کی جس جدوجہد کو آپ لوگ ڈرامہ کہتے تھے اور اسکا مذاق اڑاتے تھے اس جدوجہد سمیت نوازشریف جب منظر سے ھٹا تو سارا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا اور آج اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر اس منظرنامے پر چھا چکی ہے کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو آج اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ ابرو کی محتاج نہیں کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو گیٹ نمبر چار کے پاس اپنا دو مرلے کا گھر بنانے کو مرا نہیں جا رہا ایک شخص صرف ایک شخص مائنس کیا ہوا آج منظر بھی اسٹیبلشمنٹ ہے اور پسِ منظر بھی۔
واپس کریں