ناصر بٹ
تو جناب احتجاج کا عالم یہ ہے کہ اب عمرانڈو اینکرز وغیرہ کو بھی علم ہے کہ دن کی روشنی میں تو کسی نے نکلنا ہے اور نہ کوئی دعویٰ کرنا ممکن ہونا ہے اسلیے وہ دیر تک سوتے رہے اب شام کو جاگیں گے اور سو پچاس کی ٹولیوں کو جو ادھر ادھر گھات لگا کر نعرے بازی کریں گی انکو لاکھوں کا مجمع بنا کر پیش کریں گے ساتھ ہی نیازی کی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کریں گے۔
اگر کسی نے بہت زیادہ نیوٹرل بن کے ہی تجزیہ کرنا ہوا تو کہہ دے گا کہ پورا پاکستان بند کر دیا گیا ہے فاشزم عروج پر ہے کہیں سے کوئی ایمبولینس کی فوٹیج بھی نکال لی جائیگی جسے دکھا کر رونا رویا جائیگا کہ مریضوں کو ہسپتال پہنچے میں تکلیف کا سامنا ہے۔
سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کنٹینرز کیوں لگائے جاتے ہیں ملک کیوں بند کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
جواب ہے کہ امن و امان خراب کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں کا ہونا ضروری نہیں ہوتا یہ کام چند درجن لوگ بھی کر گزرتے ہیں اسلیے احتیاط بہتر ہے کسی کرائسسز سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہوتا ہے کہ کرائسز پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے پی ٹی آئی کا ماضی گواہ ہے کہ انکے احتجاج کبھی پرامن نہیں رہے انہیں وہیں پر تن دینا ہی مناسب عمل ہے راجہ کبیر کے بقول جہاں سے دائی نے دھرُو کے نکالا تھا
ویسے بھی یہ کوئی عوامی احتجاج ہے بھی نہیں عوامی احتجاج وہ ہوتا ہے جس میں معاشرے کے تمام طبقات بغیر کسی ہلاشیری کے گھروں سے نکلتے ہیں اور سڑکوں پر بیٹھ کر نظام معطل کر دیتے ہیں ابھی حال ہی میں اسکا مظاہرہ ہم بنگلہ دیش میں دیکھ چکے ہیں جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ زومبیز کے کچھ گروہ ہیں جو آدم بو آدم بو کرتے پائے جا رہے ہیں اور ان زومبیز کے ساتھ جو سلوک ہونا چاھیے وہ کیا جا رہا ہے ہم اس میں کوئی حرج والی بات نہیں سمجھتے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو جمہوریت کے اعلیٰ پیمانوں کی مثالیں دے کر اور اخلاقیات کے ڈھنڈورے پیٹ کے اپنے لیے بدامنی اور شرپسندی پھیلانے کی سہولت حاصل کرنے کے طلبگار ہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاھیے کہ ایسا بار بار ہونا ممکن نہیں ہوتا فاشسٹوں اور تخریب کاروں کے لیے جمہوری سہولتیں مہیا کرنا خود جمہوریت پر ظلم کے مترداف ہوا کرتا ہے۔
یوتھیوں کو ایک وڑا ہوا انقلاب اور پٹی ہوئی فائنل کال مبارک ہو۔
واپس کریں