ناصر بٹ
محترم ناصر بٹ کی خصوصی تحریر۔1999 میں پرویز مشرف نے حکومت کا تختہ الٹا تو پرویز رشید کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا ریاست کے مالکان انکے نظریات اور خیالات سے ناراض تھے۔جیل میں پرویز رشید سے جس طرح کا غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا وہ بیان سے باہر ھے ملفوف انداز میں اسکا تذکرہ کئی صحافی کر چکے ہیں۔عدالت کے حکم پر جب پرویز رشید کی ملاقات ان کی بیٹی سے کروائی گئی تو اس پوری ملاقات میں پرویز رشید کھڑے رہے کہ بیٹھنے کے قابل نہ تھے انکی شلوار اس وقت بھی خون سے لت پت تھی،پرویز رشید خاموش تھے اور انکی بیٹی مسلسل روتی رہی اور دونوں کوئی بات بھی نہ کر پائے۔
کچھ ٹارچر اسطرح کے ہوتے ہیں جو جسمانی سے زیادہ ذہنی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں یہ کچھ پرویز رشید کے ساتھ ہوا جسمانی ایذا کے ساتھ ساتھ مشرفی گماشتوں نے اس بات کا خصوصی اھتمام کیا کہ پرویز رشید کو ذھنی طور پر اتنا پست کر دیا جائے کہ وہ آئندہ طاقتوروں کے خلاف بات کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔
پرویز رشید رہا ہوئے تو نفسیاتی طور پر کئی بیماریوں کا شکار ہو چکے تھے وہ ملک چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے جہاں جا کر وہ ایک سٹور پر ملازمت کرنے لگے اور ساتھ ہی اپنا نفسیاتی علاج کروانے کے لئیے ایک برطانوی ماہر نفسیات سے رجوع کیا جس نے پرویز رشید کا علاج شروع کیا جو سالوں تک جاری رھا۔
پرویز رشید کے معالج کا کہنا تھا کہ پرویز رشید پر جو مظالم روا رکھے گئے وہ نازیوں کے مظالم اور طریقہ کار سے مطابقت رکھتے تھے۔
جب پرویز رشید مکمل صحتیاب ہوئے تو انکے معالج نے انہیں بھیگی آنکھوں کے ساتھ ایک پیکٹ دیتے ھوئے خدا حافظ کہا جس میں فیس کی وہ تمام رقوم موجود تھیں جو پرویز رشید نے دوران علاج ادا کی تھیں۔
پرویز رشید کی یہ المناک داستان ان تمام نابالغ یوتھیوں کے لئیے سنائی ہے جن کے لئیے پاکستان 2011 میں بنا تھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک نوسرباز فراڈئیے کو گود میں اٹھا کر وزیر اعظم بنوانے کے مشن میں شامل تھے اور سب بھول کر دھرنوں میں ناچنے کے علاؤہ کچھ نہیں سوچتے تھے۔۔
آج وہ یوتھییے کہتے ہیں کہ ایسا جبر پہلے کبھی نہیں ھوا۔۔
جو جبر یوتھییے آج بتا رہے ہیں وہ مشتمل ہے چند روزہ جیل کے بعد سیدھے پریس کلب تک کے سفر تک جہاں سیاسی لیڈران کے بہروپ میں کچھ نوسرباز جو اپنی اپنی دیہاڑیاں لگانے کو ایک بڑے نوسرباز اور فراڈئیے کے ساتھ شامل ہوئے تھے اور اسکی ہر آمرانہ اور فاشسٹ حرکت کا میڈیا پر گلا پھاڑ پھاڑ کے دفاع کرتے تھے اور جن کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی انکا مذاق اڑاتے تھے۔
کوئی کامران شاہد کے ساتھ بیٹھ کر اپنے مہا کپتان کو الزام دے رہا ہے تو کوئی پولو کی شرٹ اور جین پہن کے اور کیمرے ریڈی کر کے روتے ھوئے وڈیو بنوا رہا ہے اور یوتھییے کہتے ہیں کہ اتنا ظلم کبھی نہیں ہوا۔
جن لوگوں ابتدا یہ کہنا ہو کہ اگر پولیس ہمیں گرفتار کرے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے انکے لئیے واقعی گرفتاری سے بڑا کوئی اور ظلم نہیں ہو سکتا اور یہ آج بھی اسی مجہول یوتھییے کی سطح پر ہی کھڑے ہیں جسکا یہ کہنا تھا کہ پولیس ہمیں گرفتار کرے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔
بارِ دگر یاد دھانی ہے کہ ٹٹو کبھی انقلابی نہیں ہوتے۔۔۔۔۔
واپس کریں