ناصر بٹ
آج مخصوص نشستوں پر آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کسی آئین قانون یا سیاست سے کوئی تعلق مجھے نظر نہیں آتا میں اسے اداروں کی بالادستی کی جنگ سمجھتا ہوں اور خاص طور پر اس موقع پر کچھ افراد کا ذاتی مسلہ اس فیصلے کا موجب بنا ہے۔
حکومت کو کسی آئینی ترمیم سے روکنے کی صورت یہی تھی کہ کسی بھی طرح انہیں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے روک دیا جائے اکثریتی فیصلے میں تمام وہ ججز شامل نہیں تھے جو روایتی طور پر پی ٹی آئی کے ہمدرد مانے جاتے ہیں اس میں دیگر ججز بھی شامل تھے۔
حکومت ایک آئینی ترمیم لانا چاھتی تھی جس میں موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہو سکتی تھی مزید برآں ججز تعیناتی اور ججز کی پرفارمنس بیس ملازمت کو بھی ایڈریس کیا جانا تھا اور اسطرح یہ تمام اختیارات جو جوڈیشری نے خود سنبھالے ہوئے تھے وہ پارلیمنٹ کو حاصل ہو سکتے تھے اس کا راستہ کامیابی سے روک دیا گیا ہے اب آئین کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے برتری حاصل کر گئے ہیں اور اس سے پہلے 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے جسطرح آئین کو ری رائیٹ کر دیا گیا تھا آج پھر آئین کی کئی شقوں کو ری رائیٹ کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کو اخلاقی فتح کے علاؤہ اس فیصلے سے کوئی جوھری فائدہ نہیں ہو گا حالات جو پہلے ہی خراب تھے اب غیر یقینی کی صورتحال مزید بدتر ہو گی۔
میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ 2017 میں بلیک لاء ڈکشنری کو نکال کے جب ایک منتخب وزیراعظم کو نااھل کیا گیا تھا تو اس وقت غلطی کی گنجائیش نہ تھی تب سے ڈھلوان کا جو سفر شروع ہوا وہ رک نہیں سکا اور اسے روکنے کی کوشش میں ن لیگ سمیت کئی جغادری بھی اس بھاری پتھر کے نیچے آ گئے۔
ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے مگر اب ایسی جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں سے لوگ اقتدار میں آنے جانے کا تو تجزیہ کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے مسائل کا کیا ہو گا کسطرح ہم اس مشکل معاشی صورتحال سے نکل پائیں گے اور بالفرض اگر پی ٹی آئی اقتدار میں آ بھی جاتی ہے تو وہ کیا کر پائے گے اس بارے کوئی تجزیہ نہیں کر سکتا۔
ن لیگ کی اتحادی حکومت رہے یا جائے یہ بات اب غیراہم ہو گئی ہے اصل بات پاکستان کے مسائل ہیں جو مزید بگڑتے جا رہے ہیں اور ان حالات میں جب ملک کو کسی سیاسی استحکام کی ضرورت تھی معاملات اور بھی غیر یقینی سمت کی طرف بڑھ گئے ہیں۔
اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔
واپس کریں