دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی آئی اے کی نجکاری
ناصر بٹ
ناصر بٹ
ایک وقت تھا کہ کئی فارن ائیر لائینز پی آئی اے کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتی تھیں اور یہاں پاکستان میں پی آئی اے کی نجکاری کو مرنے مارنے کا مسلہ بنا لیا جاتا تھا۔یہ 1997 کا وہ وقت تھا جب پی آئی اے بریک ایون میں تھا پی آئی اے کا آپریشن دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا اور پی آئی اے کے پاس اپنے 48 جہاز تھے۔
1998 میں جب شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے چیئرمین تھے تو انکا اس وقت بھی خیال تھا کہ پی آئی اے کو پرائیوٹائز کر دیا جائے مگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ "قومی اثاثوں" کی محافظ بنی ہوئی تھی پی پی نجکاری کے نام پر ہڑتالوں کی دھمکیاں دیتی تھی اسلیے ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔
مشرف کا دور شروع ہوتے ہی پی آئی اے میں خسارے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو مشرف دور کے اختتام تک 40 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
مشرف کے بعد پی پی کی حکومت آئی تو یہ خسارہ مزید بڑھ گیا اور ساتھ ہی ایک کام اور ہوا کہ پی آئی اے کے آپریشنل جہاز کم ہوتے ہوتے 16 تک رہ گئے۔۔باقی کچھ کنڈم ہو گئے اور کچھ خراب کھڑے تھے۔
کسی بھی ادارے میں خسارہ جب شروع ہو جاتا ہے تو وہ پھر ملٹی پلائی ہونا شروع ہو جاتا ہے پی پی کے بعد آنیوالی ن لیگ کی حکومت میں بھی یہ خسارہ مسلسل بڑھتا گیا اور پاکستانی سیانے اس وقت بھی نجکاری روکنے کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکلنے کو تیار تھے سب کا یہ کہنا تھا کہ فلاں فلاں کام کرنے سے پی آئی اے منافع بخش ہو جائے گا مگر ان سب سیانوں کا ایوی ایشن نالج اتنا ہی تھا جتنا مولوی در در کتیو کا معیشت بارے تھا۔
مجھے سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب خواجہ سعد رفیق نے وزیر ہوا بازی کا قلمدان سنبھالا اور ان سے اس دوران جو ملاقات ہوئی وہ بھی نجکاری کے خلاف نظر آئے اور اس وقت انہوں نے پی آئی اے کی بحالی کا جو پروگرام بتایا تھا ہم اسے سن کر صرف مسکرا دیے تھے ان سے البتہ اتنا ضرور کہا تھا کہ جناب من پی آئی اے میں ایک سے بڑا ایک کاریگر اور فنکار بیٹھا ہے جس نے آپ سے پہلے بڑے بڑوں کو شیشے میں اتار لیا تھا خواجہ صاحب کا مگر کہنا یہ تھا کہ ہم نے بھی بال دھوپ میں سفید نہیں کیے انکی اوقات نہیں کہ مجھے شیشے میں اتار سکیں جاتے ہوئے مگر وہ پھر یہ کہتے نظر آئے کہ پی آئی اے کو اگر بیچا نہ گیا تو اسکا سالانہ خسارہ صرف دو سال میں ڈھائی سو ارب سالانہ ہو جائیگا اس دفعہ ہم ان سے مکمل متفق تھے مگر خود خواجہ صاحب پی آئی اے میں اپنی ریلوے کی کارکردگی بھی ڈبو چکے تھے۔
جسطرح جب شیخ مجیب نے چھ نکات پیش کیے تھے تو ہم نے انہیں حقارت سے ٹھوکر مار دی تھی اور بعد میں اسی شیخ مجیب کی منتیں کرتے رہے کہ چھ نکات منظور ہیں مگر شیخ مجیب نے کہا تھا کہ اب اسکا وقت گذر گیا اسی طرح آج پی آئی اے کی جو بولی لگی ہے وہ نرم سے نرم لفظوں میں شرمناک ہے۔۔
آج کسی اچھے کمرشل ایریا میں دوچار کنال کا پلاٹ بھی دس ارب سے زیادہ کا ملتا ہے مگر آج پاکستان کے فلیگ کیریئر کی بولی دس ارب لگائی گئی جو بلیو ورلڈ سٹی کے فراڈیوں کی طرف سے لگائی گئی تھی باقی پانچ بولی دھندہ جنہوں نے بولی کا زر ضمانت جمع کروایا تھا وہ بولی میں حصہ لینے ہی نہیں پہنچے۔
پی آئی اے نے اس بولی کی کم از کم شروعات 85 ارب روپے رکھی تھی مگر بلیو ورلڈ والوں کا کہنا تھا کہ اتنے میں تو نئی ائیرلائن کھڑی ہو جاتی ہے ان عقل کے اندھوں کو یہ علم نہیں کہ پی آئی اے اور نئی ائیرلائن میں فرق کیا ہوتا ہے۔
بہر حال لگ بھگ آٹھ سو ارب کے خسارے کا شکار پی آئی اے کی نجکاری کا عمل آج بری طرح ناکامی کا شکار ہو گیا ہے اور میرے نزدیک یہ پی آئی اے کے ملازمین کے لیے بہت ہی بری خبر ہے۔
اس سال پی آئی اے کا متوقع خسارہ 95 ارب ہے جو اگلے مالی سال میں ڈیڑھ سو ارب تک پہنچ جائیگا جسے معاشی مشکلات کے شکار ملک پاکستان کے لیے برداشت کرنا ناممکنات میں سے ہے اور نتیجتاً پی آئی اے کو ڈیفالٹ قرار دینا ہو گا یعنی بند کرنا ہوگا۔
پی آئی اے کے لیے واحد بولی دھندہ کے ساتھ بار بار مزاکرات ہوتے رہے تھے اور انکے ساتھ ملازمین کی جاب سیکیورٹی پر خاصے اختلافات تھے حکومت کا کہنا تھا کہ ملازمین کو تین سال تک نوکری سے نہ نکالنے کی گارنٹی دی جائے اس پر بھی بولی دھندہ تیار نہ تھے۔
جو بھی ہے ہم ایک دفعہ پھر ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلے نہ کر پائے اور اب پیچھے کھائی اور آگے گڑھا ہے اور لی آئی اے سانپ کے منہ میں چھپکلی بن چکی ہے جسے نہ اگلا جا سکتا ہے نہ نگلا۔
واپس کریں