طاہر راجپوت
مسلمانوں کے زوال کی جہاں اور بھی کئی وجوہات ہوں گیں وہاں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عہد زوال میں اہل لوگ نہیں رہے تھے۔ اکثر قابل شہزادے، جنرلز، دانش ور،سائنسٹسٹ، وغیرہ ذرا سا شک، وہم ہونے پہ مروا دیے جاتے تھے۔ اس کے برعکس خوش آمد کرنے والے لوگ ان کے اردگرد رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس ٹیلنٹ کا خلا پر نہ کیا جا سکا۔ ٹھیک ہے کسی کے مرنے سے فرق نہیں پڑتا ہو گا اور قابل لوگوں سے قبرستان بڑھے ہوے ہیں، لیکن قابل لوگوں کی ریپلیسمنٹ بھی اتنی جلدی ممکن نہیں ہوتی اور نرگس کے پھول کو اس کے لئے صدیوں رونا پڑتا ہے۔ اب ذولفقار علی بھٹو دیکھ لیں وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ان کا خلا آج تک پر نہیں ہو سکا۔ اسی طرح اسلامی دنیا میں اس طرح کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ ایسے دارا شکوہ جیسا انتہائی پڑھا لکھا، صوفی مزاج انسان، مصنف، اقتدار کی جنگ میں مارا گیا۔ اسی طرح عثمانی خلیفے بردار کش تھے۔دوسری طرف مغرب نے ہر طرح کے لائق لوگ پیدا کیے جو دیکھتے دیکھتے تمام دنیا پر چھا گئے۔
یہ بات اس لئے یاد آئ کہ ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں دو سرکس نما شاعر سٹیج پہ اچھل کود کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں ہر پیشے میں انتہائی گھٹیا، مکار، نا اہل، مکروہ اور چیپ لوگ ہیں۔چلیں یہ تو ہوتا ہے لیکن پھر آپ دیکھیں گے وہ انتہائی مشہور اور کامیاب بھی ہوں گے۔ دیکھ لیں سیاست، میڈیا، ادب، مذہب، تجارت آپ کو وہ ہر شعبہ زندگی میں مل جائیں گے۔اس کی وجہ کیا ہے ان کہ پیچھے ایک طاقت کھڑی ہوتی ہے۔ وہ انہیں ہر قسم کے پلیٹ فارم دیتی ہے اور آگے بڑھنے کے مواقع۔اسی طرح عام عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ نتیجہ ذہانت، ٹیلنٹ اور قابل لوگوں کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ ہمارا اصل مسلہ یہی لوگ ہیں۔ جو بدقسمتی سے ہر شعبہ زندگی میں حاوی ہو گئے ہیں اور جاتے جاتے اتنے انڈے بچے دے جاتے ہیں کہ ان سے چھٹکارا نا ممکن ہے۔
دوسرا مسلہ اب یہ بن گیا ہے کہ لائق لوگ آنے بند ہو گئے ہیں۔ہمارے ہاں تعلیم نوکری کے حصول کے لئے ہے۔ ڈگری لی نوکری مل گئی پھر قسم ہے کسی کتاب کو ہاتھ لگا لیں۔اکثر لوگ جو پڑھتے ہیں وہ اس پروفیشن میں ہی نہیں جاتے یا جا پاتے۔ ڈاکٹر CSS افسر بنے ہیں یا ٹی وی انکر، انجنئیر صحافی بن جاتے ہیں یا ٹیچر، ٹیچر اسکول چھوڑ کر وکیل بن جاتے ہیں وغیرہ۔ جو اپنے پیشوں میں چلے بھی جاتے ہیں وہ بھی مزید ریسرچ نہیں کرتے۔ اس کا مطلب ہے ان کو اپنے پیشے سے پیار نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف پیسے، روزی روٹی یا ٹور ٹپے کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ٹیچرز یا پروفیسر ہیں جن نے تیس سال نوکری کی اور کوئی معیاری کتاب تعلیم پر لکھی ہو۔؟ ایسے ہی کتنے ڈاکٹرز ہیں جن نے کوئی میڈیکل ریسرچ کی ہو جسے عالمی پذیرائی ملی ہو۔؟ انہیں دیکھ کر برنارڈ شا نے کہا تھے کہ ڈاکٹر سائنس کے آدمی نہیں یہ گاؤں کے نائی کی طرح ہیں جو بچے کے ختنے کر لیتا ہے لیکن سائنس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔دانش کا یہ بحران اسلامی دنیا میں بالعموم اور ہمارے ملک میں خاص طور پر موجود ہے جس سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
واپس کریں