دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہمارے اصل مسائل
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
جدید ریاست جدید اقدار پہ مشتمل ہوتی ہے نہ کہ دھوتی کپڑے پہ، اور اسے جمہوریت اور صنعت جوڑے رکھتی ہے۔ہم پاکستان میں کام، فرض شناسی اور سادگی کا کلچر پیدا نہیں کر سکے۔ کام کا مقصد پیسہ نہیں، اس کا مقصد فرض کی ادائیگی اور ذات کی طمانیت ہے۔ کیا کوئی ایک فرد بھی اس ملک میں اس جذبے کے تحت کام کرتا ہے۔؟ ملک کا نظام سلف لیس لوگ چلاتے ہیں۔ وہ نہیں جن کی خزانے پہ نظر ہو یا اقربا پروری کریں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ وہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں، عظیم صغیر نہیں۔ یہاں ہر بندہ ہر چیز کو پیسے سے تولتا ہے۔ اس لئے لوگوں کی اخلاقیات تباہ ہے۔ حالانکہ دنیا کی سستی ترین شے وہ ہے جسے پیسے سے خریدا جا سکتا ہو۔

ہمارا مسلہ کرپشن ہے، لیکن کرپشن کیوں پیدا ہوئی اس کی وجوہات پہ کبھی بات نہیں ہوئی۔ پھر جب بات ہوتی مالی کرپشن پہ ہوتی۔ حالانکہ کرپشن کی بد ترین شکل اپنا فرض ادا نہ کرنا ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں، ٹیچر ہیں، پروفیسر ہیں، جج ہیں، فوجی ہیں، سویپر ہیں، تاجر پیرنٹس ہیں، وغیرہ، اگر اپنا فرض دیانت سے ادا نہیں کر رہے آپ کرپٹ ہیں۔ اسی طرح اگر آپ سچ نہیں بول رہے، لکھ رہے تو اپنی روح بیچ رہے ہیں آپ اپنی ذات کے ساتھ کرپشن کر رہے ہیں۔

سب سے زیادہ کرپٹ وہ والدین ہیں جو اولاد کی تربیت صحیح نہیں کرتے اور ریاست کے لئے بارودی سرنگیں بچھا دیتے ہیں۔سب سے زیادہ کرپٹ وہ اساتذہ ہیں جو بچوں کو نہ علم دے سکتے ہیں، نہ محبت دے سکتے ہیں، نہ ہنر دے سکتے ہیں۔اگر اس ملک کو بچانا ہے تو ریاست کی از سر نو تعمیر کی جاۓ۔ سلف لیس قابل لوگوں کو آگے آنے دیا جاۓ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوگا چیزوں کو فطری انجام تک پہنچنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔

مان لینا چاہیے پاکستان ایک آزاد ملک نہیں۔ جو بھی اسے کالونی کی طرح چلا رہا ہے سامنے آ جاۓ اور کم سے کم ہمیں غلاموں والے حقوق تو دے۔قوموں کو طاقتور کلچر (وطن پرستی) جوڑ کے رکھتا ہے، یا کھلا پیسہ اور سہولت۔ بد قسمتی ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ہمارا سب سے لائق فائق، زہین و فطین بچہ سی ایس ایس کر کے دکانوں کے ریٹ چیک کرتا ہے اور لوگوں کی ریڑھیاں الٹاتا ہے

ہر بندہ ڈالر جوڑنے کے چکر میں ہے کیوں لوکل کرنسی گر رہی ہے۔گلی میں ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان ہے۔ ایک بیس بائیس سال کا لڑکا اسے چلاتا ہے۔ آج میں مجھے کہتا میرے پاس دو لاکھ روپے ہیں میں کیا کام کروں۔؟ میں نے کہا بوتل پیو۔ کہتا نہیں سیریس بتائیں۔؟ میں نے کہا دوکان تو چلا رہے ہو اور کیا کرو گے۔؟ کہتا ڈالر نہ خرید لوں مہنگے ہو جائیں گے۔ آئ واز شوکڈ کہ ایک دوکاندار ڈالر سٹور کرنا چاہتا ہے باقی کیا بنے گا۔

کچھ ملکوں میں دولت ہے لیکن آزادی نہیں، کچھ میں دولت بھی ہے اور آزادی بھی، ہمارے پاس نہ دولت، نہ آزادی۔ دیکھنا ہو گا ہم کہاں جا رہے ہیں ہمارا ہمسایہ ملک بھارت کی فضائی کمپنی ائیر انڈیا نے ساٹھ ارب ڈالر کے 470 نئے جہازوں کا آرڈر دے دیا۔ یہ ایوی ایشن انڈسٹری کی آج تک کی سب سے بڑی ڈیل ہے۔مودی کہتا ہے ایئر سفر کو سستا کریں گے تا کہ عام آدمی بھی جہاز پہ سفر کر سکے۔جبکہ یہاں جس کی کار ہے وہ تیل کے ڈر سے چلا نہیں رہا جبکہ لوکل بسوں، ٹویوٹوں کے کراۓ بہت ہو گئے ہیں۔ عام بندہ چنگ چی پہ سفر نہیں کر سکتا۔

حیرت کی بات ہے ہماری اکانومی کو کیا مسائل لاحق ہو گئے ہیں۔معیشت کو کوئی مسلہ نہیں اصل بات ہے اشرافیہ کے خرچے بہت بڑھ گئے ہیں اور دو تین عشروں سے اب اس کا سائز بھی بڑھ گیا ہے۔ ان سب کے اللے تللوں کے لئے بیرونی امداد بھی کم ہے اور اندرونی پیداوار بھی پوری نہیں ہو رہی۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ تقسیم کے بعد سب کرپٹ، عیاش اشرافیہ ہمارے حصے آئ۔ آپ پریشان نہ ہوں وہ جلد آپ کے گردے کپورے بیچ کر اپنی عیاشیاں جاری رکھیں گے۔
واپس کریں