طاہر راجپوت
زیادہ تر زندگی وقت کی راکھ بن جاتی ہے۔ صرف اتنی سی زندگی جو یاد میں باقی ہے وہی ہماری زندگی ہے۔ اس لئے یاد کو قیمتی خیال کرو۔ ہمارا آٹو میموری سسٹم اہم چیزیں ہی محفوظ رکھتا ہے باقی سب کو ڈیلیٹ مار دیتا ہے۔ سو رفتہ رفتہ ہم کسی کے ذہن میں اتنا سا ہی موجود ہوتے ہیں جتنا دور سے ٹمٹماتے ستارے نظر آتے ہیں۔وقت کے ساتھ یاد مدھم پڑ جاتی ہے صرف بوڑھے لوگ اجتماعی قیمتی یاد کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ جس سوسائٹی میں اوسط عمر کم ہو وہ اس اہم ورثے سے محروم ہو جاتی ہے۔
نوجوانوں کا کیا ہے انہیں سستے نعروں، جھوٹے وعدے وعیدوں سے جدھر مرضی لگا دیا جاۓ۔یہ اس لئے آسان ہوتا ہے ان کے پاس یاد نہیں ہوتی۔ شیکسپیئر کہتا ہے کہ نوجوان توپ کے منہ میں جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ کسی بھی فاشسٹ نظام میں یاد کو مٹایا جاتا ہے۔ یاد تحریر، تقریر، تصویر، تجربے کی صورت ہوتی ہے۔ تاریخ، کلچر،تہذیب، ادب سماجی یاد کا اہم جز ہیں۔ یادداشت سے محروم اقوام کو ریوڑ کی طرح جدھر مرضی ہانکا جا سکتا ہے اور انہیں کوئی بھی نیا سبق پڑھانا آسان ہوتا ہے۔ شور اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ لوگ ماضی کو بھول جائیں اور ان کے ذہن سے یاد مٹ جاۓ،،
ایک پرندہ بھی اپنے بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا وہ اسے زندگی کے گر سکھا جاتا ہے۔ جن آسمانوں پہ اس نے اڑنا ہے، جن دشمنوں سے اس نے بچنا ہے، جن زمینوں پہ اس نے اپنے لئے خوراک تلاش کرنی ہے۔ کیا نوجوان نسلیں اتنی زہین اور چالاک ہو گئی ہیں کہ وہ مشترکہ ورثے اور تاریخ و ادب کو تج کر کچھ عظیم بنا سکتی ہیں۔؟ دیوتا دایدالس نے اپنے بیٹے ایکالس سے کہا تھا "اتنی اونچی پرواز نہ کرو کہ تمھارے پر موم سے بنے ہیں"۔ اس نے باپ کی بات کو نظر انداز کیا اور سورج کے پاس پہنچ گیا جہاں جل کے بھسم ہو گیا۔کوئی بھی سماج جو بوڑھوں سے نکل کر نوجوانوں کے اختیار میں آ جاۓ اس پہ فکر کرنی چاہیے۔ وہ سماج ایک آتش فشان کے دہانے پہ بیٹھا ہے۔ موم کے پروں کے ساتھ یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔
آج کے نوجوان جب کل بوڑھے ہو جائیں گے تب ایک اور نوجوان نسل موجود ہو گی جو ان کی یاد اور تجربے پہ اعتماد نہیں کرے گی۔ہم اسی لئے لاسٹ جنریشن ہیں کہ پرانے کو ہم نے چھوڑ دیا یا مس ٹرسٹ اور نیا کچھ اختیار نہیں کر سکے۔
تجربہ اچھی چیز ہے، لیکن ہر تجربہ نیا نہیں ہو سکتا۔ تجربہ مسلسل تجربات کی کڑی ہونا چاہیے۔ اسے روایت کہتے ہیں۔ سو روایت خود کوئی بری شے نہیں۔ وہ مسلسل تجربات کا نچوڑ ہے۔ ہم ہمیشہ سے نۓ تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کوئی بھی نیا شخص یا نئی نسل وہ روایت کو تج کر انسانی سماج کو تجربے کی بھینٹ چڑھا دے اس کی کسی سماج کو اجازت نہیں دینی چاہیے۔ روایت کی یہ کڑی ادب اور کتابوں کے زریعے سے ہم تک پہنچتی ہے۔یہ ہمارا مشترکہ انسانی ورثہ ہے۔ اس کے لئے عالمی ادب و تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ہم جیسے معاشروں میں ان مضامین کو پڑھنا پڑھانا غیر ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
نتیجہ ازلی دربدری۔،،
عالمی تاریخ و ادب پڑھے بغیر حالات حاضرہ پڑھنا خود کو برین واش کرنے کے مترادف ہے، جس کا شکار آج کی نوجوان نسل ہو چکی ہے۔
واپس کریں