ٹرمپ، آمریت پسند ذہنیت، اور امریکی جمہوری و لبرل روایات کی مزاحمت
طاہر راجپوت
ٹرمپ جس طرح دنیا کے معاملات کو قدیم بادشاہوں کی طرح اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اس میں سخت ناکام ہوں گے۔ ان کی سوچ آمرانہ ہے، اور وہ ہمیشہ طاقتور شخصیات کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پوٹن سے متاثر ہیں، اور اندرونِ خانہ چین کی ترقی کو بھی آمریت سے جوڑتے ہیں۔ اسی رجحان کی وجہ سے وہ عرب بادشاہتوں کو بھی پسند کرتے ہیں۔
لیکن امریکہ اور یورپ کی سیاست اس کے برعکس ہے۔ امریکہ میں جمہوریت محض ایک طرزِ حکومت نہیں بلکہ ایک گہری تاریخی اور سماجی روایت ہے، جس نے آزادی، حقوق، اور ادارہ جاتی توازن کو بنیادی اصول بنایا ہے۔ امریکی آئین اور سیاسی نظام اسی روایت کے محافظ ہیں، جو فردِ واحد کی مطلق العنانیت کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ لبرل ازم، جو انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کی بالادستی پر زور دیتا ہے، امریکہ کی فکری بنیادوں میں شامل ہے۔
امریکی تاریخ میں کئی مواقع پر جمہوریت اور لبرل ازم نے آمریت پسند رجحانات کو شکست دی ہے۔ ابراہیم لنکن نے خانہ جنگی کے دوران جمہوریت اور انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہوئے غلامی کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔ دوسری جنگِ عظیم میں فرینکلن ڈی روزویلٹ نے فاشزم کے خلاف قیادت کی، جبکہ 1950 کی دہائی میں میکارتھی ازم کے خلاف آزادیٔ اظہار کی جنگ لڑی گئی۔ 1974 میں صدر نکسن کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر مستعفی ہونا پڑا، اور حالیہ دور میں ٹرمپ کی غیر جمہوری پالیسیوں کے خلاف بھی امریکی جمہوری اداروں، عدلیہ، میڈیا اور عوام نے زبردست مزاحمت کی، جس کا مظاہرہ 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل حملے کے بعد دیکھا گیا۔
ٹرمپ یورپ اور خود امریکی جمہوری و لبرل اقدار سے دور ہونا چاہتے ہیں اور آمریت پسند حکمرانوں کے قریب جانا چاہتے ہیں۔ ان کی جارحانہ اور اشتعال انگیز سیاست نے انہیں وقتی طور پر امریکہ میں مقبول بنایا، خاص طور پر نوجوانوں کو، جو ان کے ڈیماگاج (Demagogue) اور بھڑک باز سٹائل سے متاثر ہوئے۔ لیکن یہ اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا، کیونکہ امریکی سیاسی و سماجی ڈھانچہ محض جوشیلی تقاریر یا وقتی نعروں پر نہیں چلتا۔
امریکی عوام کے مزاج میں جمہوریت اور آزاد خیالی (لبرل ازم) گہرے طور پر رچے بسے ہیں۔ یہاں کے لوگ محض جذباتی نعروں پر اندھا یقین کرنے والے نہیں۔ ٹرمپ کی آمریت پسند پالیسیوں کے خلاف ردعمل ضرور آئے گا، اور اس کا نتیجہ خود امریکہ کے اندر شدید سیاسی انتشار کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکی جمہوریت ہمیشہ ایسے غیر جمہوری عناصر کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہے، اور یہی مزاحمت آگے بھی جاری رہے گی۔
واپس کریں