طاہر راجپوت
جون ایلیا نے کہا تھا ہم بارھویں صدی کے لوگ تھے جنہیں بالوں سے گھسیٹ کر اکیسویں صدی میں لایا گیا۔ "پاکستان کے پاس فروخت کرنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن مسلہ شدت پسندانہ سوچ، فکر، سیفٹی، سیکورٹی، سہولیات کا ہے۔پاکستان اپنی انٹرٹیمبٹ انڈسٹری کو گرو کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس انڈس، گندھارا دو عالمی ثقافتی ورثے موجود ہیں۔ انڈس، گندھارا سویلائزیشن کے تہذیبی مقامات، آرٹ ورک، تاریخ، بدھ مت، ہندو مت کے لئے مقدس ہیں۔ تاریخ اور مذہبی سیاحت کو فروغ دے کر ہم دنیا میں فروخت کر سکتے ہیں۔
لوکل ہینڈی کرافٹ انڈسٹری کو فروغ دے کر فروخت کیا جا سکتا ہے۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، گجرات وغیرہ ہمارے شہر اس سلسلے میں اہم ہیں۔اگر ان کرافٹ کلچر پاکستانی ٹورازم کا کوئی کنزیومر نہ ملے بھی تو امریکہ انگلیڈ میں موجود پاکستانی کمیونٹی تو موجود ہے یہی لوگ آپ کے گاہک ہوں گے۔لیکن مسلہ سارا سیفٹی، سیکورٹی، سہولیات آزادی کا ہے۔ بقول ایاز امیر لوگ صرف پہاڑ، کھلیان دیکھنے نہیں آتے موج مستی بھی چاہتے ہیں۔
دو تین دن پہلے بی بی سی پر خبر تھی کہ جہلم اسلام آباد سے دوستوں کا ایک گروپ مانسہرہ میں کیمپنگ کے لیے گیا تھا۔ رات ان پر حملہ کر کے ان کو لوٹ لیا گیا اور ایک بزرگ ریٹائر ٹیچر کو قتل کر دیا۔ جب ایسے حالات ہوں گے عالمی میڈیا پر نیوز بنیں گی تو غربت بدحالی پاکستان کا مقدر ہے۔خوشحالی کو اگانے کے لیے بڑی سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ قربانی اور خون دینا پڑتا ہے، پھر اس کی حفاظت بھی کرنا پڑتی ہے، تب اگلے نسلوں کو ثمرات منتقل ہوتے ہیں۔یہ ایک لمبی انویسٹمنٹ ہے اور صرف جمہوریت سے ہی ممکن ہے۔"
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپکسپورٹ اور پروڈکشن کبھی ریاستی ترجیحات رہی ہی نہیں۔ پہلے کولڈ وار میں پیسہ کھایا اس کے بعد افغان وار میں پیسہ وغیرہ ملتا رہا۔ ہم صرف و صرف اپنی ملٹری کو مضبوط کرتے رہے کسی بھی سیکٹر پر زیرو توجہ بھی نہی دی نہ پیسہ لگایا۔ اب جب اس خطے میں جنگ نہیں، تو ہمارے پاس پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ہمارا تو جنگ ہی ذریعہ تھا۔ جیسے چالیس سال آپ نے ایک کاروبار کیا ہو اور بدلتے زمانے کی وجہ سے آپکا کام ٹھپ ہوجائے تو اس عمر میں کہاں کوئی دوسرا کاروبار کر سکتا ہے بندہ۔ بس یہی صورتحال ہے۔ ڈویلپمنٹ کا پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہیں۔ جنگ کے علاوہ اندورونی لوٹ کھسوٹ کا تجربہ ہے صرف اشرافیہ کے پاس، ذیادہ سے ذیادہ یہی پروڈکشن رہی ہے ہماری کہ بیرونی A گریڈ کی چیزوں پر کسٹم ڈیوٹی ذیادہ لگوا دی تاکہ وہ چیزیں لوگ خرید ہی نہ سکیں اور اپنی B گریڈ چیزیں بنا کر مارکیٹ میں دھڑا دھڑ بیچیں۔ تو بھائی اب ڈیفالٹ ہی ہونا ہے۔"
ہمارے پاس پیدا کرنے اور بیچنے کو کچھ نہیں۔ان بنیادوں پہ تجارت اور تعلیم کی بنیاد ہی نہیں رکھی گئی۔ ایک کلچر ہوتا ہے، جو ڈیولپ کرنا ہوتا ہے۔ راتوں رات کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہمساۓ میں انڈیا، بنگلہ دیش نے اسے کامیابی سے اختیار کیا۔ وہ بیس تیس سال پہلے اس پہ چل پڑے تھے، ہم بھی بیچ بیچ کچھ کوشش کرتے ہیں پھر کوئی طالع آزما آ کے اسے اتنا ریورس گیر لگا جاتا ہے کہ وہاں تک آنے میں پھر بیسیوں سال چاہیئیں۔یہی ہمارا اصل مسلہ ہے۔ ہم دنیا کو کیا دے سکتے ہیں۔؟ ہمارا جدید گلوبل زندگی میں کیا کونٹرییبشن ہے۔؟ سالی ایک ہی چیز اکسپورٹ کرتے تھے اس کی بھی اب مانگ نہیں رہی۔ اب مانگ تانگ کے کب تک وقت پورا کرتے رہیں گے۔اتنی آبادی کو پالنے اور سہولتیں دینے کے لئے وسائل چاہییں یعنی ویل سکلڈ آبادی چاہیے اور اس سے ببھی بڑھ ککر آزادی جمہوریت اور ترقی کے یکساں مواقع،،
نوٹ:تحریر میں کچھ مواد فیس بک کے دوستوں کا ہے
واپس کریں