طاہر راجپوت
نواز شریف کی نا اہلی سے 2018 کے الیکشن اور پھر عمران خان کا دور حکومت، بیچ میں کرونا کی عالم گیر وبا کا کچھ وقفہ تھا جو ملکی سیاست سے لوگوں کو ہٹا کر زندگی، موت، کے ما بعد طبیعاتی سوالات اور خیالات کی طرف کچھ دیر کے لئے لے گیا۔حکومت وقت نے بھی اس فلسفیانہ توقف کی وجہ سے کچھ سکون حاصل کیا۔ لیکن پھر سیاسی گرمی پیدا ہو گئی اور عمران خان کو ہٹانے کے لئے عدم اعتماد تجویز کی گئی، جس پر PDM کی جماعتوں نے بڑے زور شور سے عمل کیا۔ خان حکومت مہنگائی کی وجہ سے غیر مقبول ہو چکی تھی۔ PDM کی جماعتوں کو یقین تھا کہ یہی وہ وقت ہے جب خان کو دھکا دیا جانا بنتا ہے۔
خان /باجوہ تعلقات بھی جنرل فیض کی وجہ سے خراب تھے۔ اس لئے اپوزیشن جماعتوں کو کہیں نہ کہیں سے غیبی امداد مل رہی تھی۔ جنرل باجوہ نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا اور معتوب ہوے۔ عمران خان نے آئین و قانون، پارلیمنٹ، عدلیہ سب کے سامنے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ آخری لمحوں تک عدم اعتماد نہیں ہونے دیا۔ پھر اسمبلیوں سے استغفے دے دیے۔ غرض ہر فورم پہ ان نے شدید مزاحمت کی۔ مقتدرہ کے وہ عناصر جن نے خان کے دور میں انہیں سپورٹ کیا تھا اس کے ساتھ کھڑے رہے، جس سے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اسٹبلشمنٹ کے حلقوں میں گہری تفریق دکھائی دی۔
عمران خان نے اس تفریق سے فائدہ اٹھایا۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ اس کے ساتھ نوجوان ہیں۔ موجودہ حکومت شدید مہنگائی کر کے بہت غیر مقبول ہو چکی ہے، اسٹیبلشمنٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ملک کی معاشی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ اس موقع کو غنیمت جان کر کشمکش فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکی ہے۔
سیاسی راۓ گو کہ بہت کم سائنسی راۓ میں ڈھل پاتی ہے، کیوں کہ سائنسی راۓ خواہشات پہ نہیں پچھلے تجربات کے نتیجے میں ہی قائم ہوتی ہے۔ اگر مسلمانوں کی تاریخ، خاص کر وسط ایشیا اور قبائل کی تاریخ، کہ جب ایک جتھا کچھ لڑائیوں کے بعد بھاری ثابت ہو جاتا ہے تو تمام تر پہلے سے موجود طاقتور جتھے اس کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اس کو مزید مضبوط بنا دیتے ہیں، لیکن جونہی دیکھتے ہیں وہ کمزور پڑ رہا ہے اندر ہی اندر اسے یرغمال بناۓ رکھتے ہیں۔ موجودہ کشمکش اسی عظیم تاریخ کی کڑی اور لڑی ہے۔ عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔ اس کھینچ تانی کے بعد جو کے اشرافیہ کے نۓ اور پرانے گروپس میں جاری ہے، نۓ کی مکمل جیت کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی تمام باقیات اور قوت اپنی روح کے ساتھ نۓ سسٹم میں شفٹ ہو جاۓ گی اور مزید خطرناک اور فاشست ثابت ہو گی۔ البتہ ڈر ہے جمہور کی آزادی خواب رہے گی۔
دوسرا اس سے بھی خطرناک رخ وفاق کی کمزوری اور اس کے ٹوٹنے تک جا سکتا ہے۔ پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس طرح کی سیاسی صورت حال اسے مزید معاشی بحران کی طرف دھکیلے گی۔اگر یہی کھینچا تانی لمبی ہو گئی تو لاغر معشیت کے ساتھ وفاق کی چولیں ہل جائیں گی۔ممکن ہے گوربا چوف کی طرح عمران خان کو امن کا نوبل انعام مل جاۓ لیکن ہمارے حصے سارے ریٹائرڈ ہی آئیں گے۔
موجودہ سیاسی، معاشی افراتفری اور بے یقینی میں اگر وفاق ٹوٹ جاتا ہے تو کسی کو کیا فرق پڑے گا۔؟ چین کی تجارت جاری رہے گی۔ روس، امریکا، سعودی عرب نئی ریاستوں کے ساتھ تعلق بنا لیں گے۔ البتہ ساتویں ایٹمی ریاست کا تفاخر اور غرور خاک میں مل جاۓ گا۔ اس وقت سمجھداری اور عظیم دانش وری کی ضرورت ہے جو بہر حال ابھی ناپید ہے۔
واپس کریں