دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اقبال اور جرمن۔طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
اچھا علامہ اقبال پہ بہت سی ریسرچز ہوئیں ہیں۔ بہت سے سیمینارز منعقد کئے گئے، PHD کے تھیسس لکھے گئے، قومی دن مناۓ گئے، لیکن ایک ریسرچ میں آپ کو بتا دوں جو پہلے کسی نے نہیں کی کہ اقبال "جبلی" طور پہ جرمنوں کے بہت قریب تھے۔

اقبال کو "شاعر مشرق" تو کہا جاتا ہے لیکن وہ اپنے افکار و خیالات میں جرمنز کے قریب تھے۔ اقبال کی شکل بھی نطشے سے ملتی تھی اور وہ اس کی طرح حلیہ بھی اپناتے تھے۔نطشے کی طرح وہ مجذوبی میں حقہ کھینچتے تھے اور نطشے کے نظریات سے بھی متاثر تھے۔گوئٹے جرمن شاعر سے ببھی بہت متاثر تھے۔

آپ نے میٹرک کی کلاس میں پڑھا ہو گا کہ ان کا "مرد مومن" نطشے کا ہی فوق ال بشر ہے۔ اس لئے وہ طاقت پہ یقین رکھتے تھے اور مومن کو طاقتور دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے ملکہ برطانیہ کے انتقال پر مرثیہ بھی لکھا اور انگریزوں سے سر کا خطاب بھی لیا۔طاقتوروں کی طاقتور ہی قدر کرتے اور جانتے ہیں۔

جرمنوں کے ساتھ اقبال کا خونی رشتہ بھی تھا۔ جی خونی۔ سچ کہ رہا ہوں۔ آپ نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہو گا کہ جرمن قوم اصل میں قدیم آرین قوم ہے۔ اونچے لمبے، سفید فام، نیلی آنکھیں، براون بال۔ ان کی اوریجن یعنی جاۓ پیدائش پہ اختلاف ہے لیکن کہتے ہیں یہ وسط ایشیا یا تبت سے نکل کر ایران اور یورپ جرمنی تک پھیل گئے تھے۔ ادھر ہماری سائیڈ پہ یہ ہندوستان میں گھس آے۔ یہ عمل کوئی تین ہزار سال پہلے مکمل ہوا۔ اس طرح جرمن، ایرانی ہندوستانی آرین بھائی بھائی ہیں۔ ایک قبیلہ ہیں۔

ہٹلر جو کہ سخت نسل پرست تھا اور صرف آرین اقوام کو دنیا کی خالص ترین، زہین ترین قوم سمجھتا تھا۔ باقیوں کو وہ "سب ہیومین" کہتا تھا اور انہیں ختم کرنا چاہتا تھا۔ اقبال بھی چاہتے تھے کہ صرف شاہین کی حکمرانی ہو۔ہٹلر نے اس بات کی تصدیق کرنے کو ہندوستان تبت کی طرف بشریات کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم بھیجی تھی۔ جن نے یہ تصدیق کی کہ جرمن اقوام تبت کے پاک پہاڑوں سے نکلی ہیں اور ہندوستانی ہمارے بھائی ہیں۔ کچھ کہتے یہ سیاسی پروپیگنڈا تھا تا کہ ہندوستانیوں کی انگریزوں کے خلاف حمایت حاصل کی جاۓ۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ آرین کی "گم شدہ بھیڑیں" ہندوستان میں موجود ہیں۔

آرین لوگوں کا ایک قبیلہ جو کہ محض لکھنے لکھانے سے تعلق رکھتا تھا، جن کے لئے دریاۓ سرسوتی کے کنارے مخصوص کیے گئے تھے۔ وہاں وہ غور و فکر کرتے۔ انھیں سنسکرت جو کہ آرین کی ماں بولی تھی میں "بھاٹ" کہا جاتا تھا۔ بھاٹ کا مطلب "سکالر" ہے۔ یہی لفظ تھوڑا مٹ کر 'بھٹ' بن گیا اور یہی لفظ جب ہمارے والے پنجاب آیا تو کیوں کہ ہم 'ھ' بولنے سے قاصر ہیں اس لئے 'بٹ' بن گیا اقبال بھی وہی عالموں کے خاندان کے 'بٹ' ہیں۔ اس قبیلے سے ہی کالی داس، پنڈت نہرو، سعادت منٹو اور اقبال جیسے عالم فاضل لوگ پیدا ہوے۔

شائد یہی 'بھاٹ' بھٹ، بھٹی میں بھی بدل گیا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ 'راجپوت بھٹیوں' میں بھی بہت فاضل لوگ پیدا ہوے۔ ارشاد احمد بھٹی کے تجزیے تو آپ نے ٹی وی پہ سنے ہوں گے۔ (خاکسار بھی بھٹی راجپوت قبیلے سے ہے) اب آپ نے دیکھا کس طرح علامہ اقبال کا جرمن سے خونی رشتہ نکل آیا۔یہی خونی کشش تھی جو انہیں کھینچ کھینچ کر جرمنی لے جاتی۔ان کو جرمن سے بہت محبت تھی۔ وہ کبھی حج عمرہ کرنے نہیں گئے لیکن جرمنی ضرور جاتے تھے۔ سنا وہاں کی ایک لڑکی ایما سے انھیں شدید محبت ہو گئی تھی اور اسے خط لکھ لکھ کر یقین دلاتے تھے کہ اس کے بغیر ان کی زندگی میں کوئی کشش نہیں رہی۔اقبال کے وہ خطوط پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

"میں بہت کچھ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، تم تصور کر سکتی ہو کہ میری روح میں کیا ہے۔؟ میری خواہش ہے کہ میں تم سے دوبارہ بات کروں اور تمہیں دیکھوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے۔ جس شخص نے تم سے دوستی کی ہو اس کے لیے تمہارے بغیر جینا ممکن نہیں۔"

شکر ہے کہ اس حسینہ نے ان باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا، نہیں تو ہم قومی شاعر سے محروم ہو جاتے۔ جرمن فلسفہ فکر بھی اقبال کی شاعری پہ چھایا ہے۔ گو کہ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی فکر اپنے خنجر سے خود خود کشی کرے گی لیکن یہ خون کی کشش تھی جو اقبال کو جرمن کی طرف لے کر جاتی تھی۔
واپس کریں