دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لمز کے طلباء اور عوامی اشتعال
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
یہ سچ ہے کہ لمز جیسے ادارے کے طلباء کا انداز سوال کسی طرح بھی آئیڈیل نہیں تھا۔ جناب محترم کاکڑ پر تنقید بنتی ہے یا اس نظام پر جو ہم مسلط ہے۔ کچھ دوست اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے سوال "آپ لیٹ کیوں آئے ہیں۔؟ آپ یہاں کیوں آئے ہیں، آپ پچاس منٹ کیوں لے رہے ہیں۔ یہ سوالات نہیں بلکہ ٹرولنگ ہے اور بدتمیزی ہے۔
طلباء قدرے بہتر اور genuine سوالات بھی پوچھ سکتے تھے۔ یعنی "کہ مسنگ پرسنز کہاں ہیں، جبری گمشدگیاں کیوں ہو رہی ہیں، پارا چنار میں کیا ہو رہا ہے، کالعدم تنظیمیں کیوں سیاسی ڈسکورس کا حصہ ہیں۔ یہ بھی نہیں تو پوچھیں ایجوکیشن بارے حکومت کا ویژن kیا ہے، روزگار کہاں سے آئے گا، غیر ملکی انوسٹمنٹ پاکستان میں کیسے لائیں گے۔ ملک کی بہترین سمجھے جانے والی یونیورسٹی کے طلباء کا ذہنی معیار کیوں گر گیا ہے۔ وغیرہ"
لمز کے طلبا کا طرز تخاطب مجموعی طور پہ یہاں کی یوتھ کی نمائندگی کرتا ہے جس میں غصہ بھی ہے نوجوانی کی بولڈنس بھی اور یہاں کے نظام اور ان کے چلانے والوں سے نفرت بھی۔ اس کو آپ جسٹیفائی کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ دنیا ایک عالمی دیہات ہے نوجوان ویلفیر اسٹیٹ کے بارے میں سنتے آے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کی کچھ جھلک یہاں بھی نظر آے۔ یہ درست ہے کہ شائد یہ بیانیہ اور اظہاریہ کسی گہرے تفکر کا نتیجہ نہیں بلکہ سنا سنایا اور میڈیا کے زور پر بنا ہے۔ البتہ یہ کچھ ایسا برا رجحان بھی نہیں جہاں نوجوان طاقت کے مراکز پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس رجحان کو کبھی اجتماعی دانش یا کسی مسیحا کی مسیحائی مل سکے اور یہ کسی تاریخی رنگ میں ڈھل سکے۔
کسی عوامی شخصیت کے نظر آنے پر لوگ اس لئے بھی اپنی ساڑ' نکالتے ہیں کہ یہاں کوئی ایسے فورم' موجود نہیں جہاں عوامی نمائندگی ہو یا عوام کے مسائل پر بات کی جا سکے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل لیں آپ نے شناختی کارڈ بنانا ہے، پاسپورٹ والا رشوت مانگ رہا گلی نالی کے مسائل، آپ پریشان ہیں آپ کس سے بات کریں,، کسے شکایت لگائیں،؟؟ اس شکائت کا کیا حل ہو گا۔؟ اس کا کوئی فیڈ بیک، اس سے کوئی نتیجہ۔؟ کچھ نہیں۔
اسی طرح لوگ اپنی آراء دینا چاہتے ہیں۔وہ سماج میں اپنا contribution چاہتے ہیں لیکن انہیں بری طرح کارنر کر دیا گیا ہے۔ میرے پاس تعلیم کے سلسلے میں بہت سی suggesstions ہیں۔ میں کہاں درج کرواؤں۔؟ کوئی تھنک ٹینک ہیں۔؟جو کچھ ہے بھی وہ بھی بس وہی گھسی پٹی ریاستی نقل در نقل۔
لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ سچ ہے وہ بھی ولی نہیں لیکن وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن ریاست confused ہے۔ وہ آگے نہیں بڑھنا چاہتی بلکہ اسی پھوڑے پہ نت نۓ مرہم رکھتی ہے۔ اس کا حل عوام کو کچھ نظر نہیں آتا بلکہ جہاں کہیں کوئی عوامی نمائندہ نظر آتا، بھڑاس نکالتے ہیں۔ یہ عوامی غصہ کسی بھی افراتفری کے نتیجے میں گہرے تعصب میں بدل سکتا ہے۔
واپس کریں