دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا لارڈ میکالے ہی ہماری تعلیم کا دشمن تھا؟
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
مغربی اقوام کے ہندوستان آنے سے قبل ہندوستان میں تعلیم موجود تھی لیکن ایسی کوئی hierarchy کبھی نہیں رہی جو جدید علوم کی بنیاد بن سکتی۔اس کی بنیادی وجہ یہاں کے لوگ جدید سائنسی علم کے بنیادی ماخذ مشاہدہ اور تجربہ سے دور تھے۔ انگریزوں کی موجودگی میں پنشن خوار نوابین کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، جہاں انگریز انگلش میڈیم اسکول بنا رہے تھے، نواب اپنے حرم کا خرچ چلا رہے تھے۔ صرف سرسید تھے جو اس کمی کو دیکھ رہے تھے۔ کہتے ہیں غالب سے ملاقات کے بعد ان کے خیالات میں تبدیلی آئی تھی جب غالب نے ان کی کتاب یہ کہ کر رد کر دی کہ یہ پرانے مشرقی علوم ہماری تقدیر نہیں بدل سکتے۔
مغربی فلاسفہ نے مشرقی علم کی تاریخ کو "کلام اور عقائد" کی تاریخ لکھا۔ ان نے اپنی تاریخ re-invent کی اور اس کی بنیاد مشاہدہ، تجربہ اور تجربے کی تعمیر نو پر رکھی
رڈیارڈ کپلنگ نے سفید فام یورپی اقوام سے مخاطب ہو کر لکھا؛
"آپ اپنے بہترین بچے ان اقوام کی آزادی کے لئے دیں جو تہذیب کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ یورپی نسلیں کیوں کہ بہترین لوگ ہیں اس لئے ان پہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والی اقوام میں تہذیب اور علم کی روشنی لے کر جائیں۔ لیکن بدلے میں آپ کو صرف نفرت اور الزام hate and blame ملے گا۔
کپلنگ نے غیر متودن اقوام کو "آدھا بچہ(معصوم) اور آدھا شیطان" لکھا۔
برٹش امپائر نے اپنی کولونیل ازم کے جواز میں لکھا کہ وہ تجارت کے لئے ہی آئے تھے لیکن ان نے دیکھا کہ بعض اقوام میں تہذیب کی روشنی نہیں پہنچی، یعنی وہ مہذب نہیں ہو سکیں، جیسے انڈیا میں کم عمری کی شادی، ستی، عورتوں کی تعلیم کی مخالفت، مذہبی انتہا پسندی، سائنس دشمنی وغیرہ۔ افریقہ میں کینبل ازم، انسانی قربانی وغیرہ۔ یہ سب دیکھ کر وہ رک گئے اور ان نے سمجھا ان اقوام کو یورپی پیٹرن شپ کی ضرورت ہے۔ یعنی وہ سمجھتے تھے یہ لوگ گڑھے میں گریں ہیں انہیں نکالنا ضروری ہے۔
کولونیل ایرا کے رائیٹرز جیسے کپلنگ، سکاٹ وغیرہ نے کولونیل ازم کو غیر متودن اقوام کی ترقی کے لئے ضروری خیال کیا۔اسے انہوں نے "وائٹ مین برڈن" کہا یعنی سفید اقوام کی ذمہ داری یا بوجھ'۔ بعد میں امریکی استعمار نے بھی خود کو "آزادی کا پیام بر رکھوالا" سمجھا۔ خیر وہ اس میں کس حد تک مخلص یا کامیاب ہوئے اور کس حد تک خود تاریکی کا شکار ہو گئے اس کے لئے "ہارٹ آف ڈارکنس" ناول پڑھنا ضروری ہے۔
اس سب پہ کافی لے دے ہوئی۔اورینٹ رائیٹرز ایڈورڈ سعید، نگوگی وا تھیونگا، بھابھا،اور فرانز فینن وغیرہ نے اس نظریہ کو چلینج کیا۔لیکن یہاں کے حالات دیکھ کر که سکتے ہیں شائد وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔
آج انگریزوں کو ہندوستان چھوڑے ستر سال سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن ہمارے حالات بدتر ہوے ہیں۔جون ایلیا نے لکھا "ہم بارہویں صدی کے لوگ تھے جنہیں بالوں سے گھسیٹ کر اکیسویں صدی میں لایا گیا"۔ اس لئے یہ سوال اہم ہو گیا ہے کہ کیا ہمیں واقع جدید اقوام کی پیٹرن شپ کی ضرورت تھی/ ہے؟
انگریزوں نے ہندوستان آ کر جن بچوں کو تعلیم دی ان نے جوان ہو کر ان سے آزادی لی۔ انگریزوں کا نکتہ نظر ہے کہ وہ ان لوگوں کو اس قابل کر کے آزادی دینا چاہتے تھے تا کہ مقامی لینڈ لارڈ،ز، نواب انہیں دوبارہ غلام نہ بنا لیں۔ چرچل کو مقامی لوگوں کی اہلیت پر شک تھا۔
سائنسی علوم سے ہماری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ ہمارا سب سے لائق، قابل، فلسفی مزاج شاعر مرزا غالب یورپین نو آباد کاروں کے پاس ماچس دیکھ کر حیران ہو گیا کہ کیسے لوگ ہیں جیب میں آگ لئے پھرتے ہیں۔
افسوس ہمیں بتایا گیا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے"، اس میں نۓ علوم اور دنیاؤں کی کھوج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، لیکن مسلم دنیا الغزالی کے نظریہ تعلیم پر آ کر رک گئی اور سائنسی علوم میں پیچھے رہ گئی جس وجہ سے دنیا کی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہی۔
واپس کریں