طاہر راجپوت
میں نے اس پہ پہلے بھی لکھا تھا کہ اردو شاعری دربار میں پیدا ہوئی۔اس لئے اسے طاقتور نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا."اردو شاعری کے ماحول اور مزاج میں ہڈ حرامی رچی ہوئی ہے۔ اُردو کے تمام کلاسیک شعرا دیکھ لیں حرام ہے کسی نے زندگی بھر کوئی کام، دھندہ کیا ہو، سب راجوں مہاراجوں کے وظیفوں اور خیراتوں پر پلتے تھے۔ غالب انگریزوں سے وظیفے کے لئے کتنا زلیل و خوار ہوا۔اپنے علامہ اقبال لے لیں۔ماشاءاللہ ساری زندگی مفت خوری میں گزاری۔راجے اقبال کو پالتے رہے،۔ملکہ کی شان میں قصیدے لکھ کر گوروں سے وظیفے لئے حالانکہ مغرب کا تعلیم یافتہ تھا۔"
اردو شاعری فیوڈل ازم، درباری کلچر، خوش آمد، حرم، عورت(طوائف بازی جس میں مجرا غزل آ گئی) اور آرام خوری کے کلچر سے پیدا ہوئی۔ یہ سہل پسندوں کا 'ارٹ' ہے۔ مغرب کے فلاسفرز اور شاعر دیکھیں۔ ان میں زیادہ تر نے یونیورسٹیوں میں پڑھا اور پڑھایا۔اپنا کمایا اور کھایا اور ادب وہ لکھا جو زندگی کی تنقید ہے۔افسوس کی بات ہے اردو کا قاری آج بھی وہی لطف و فریب شاعری میں ڈھونڈھتا نظر آتا ہے۔
یہ درست ہے کہ قدیم عہد سے (شاعری کی جنسس")شاعری موسیقی، گیت یا ریٹرک سے ایک ہی کام لیا جاتا تھا۔ اس کا کام "تکرار" تھا۔ تکرار خوش الہانی کی وجہ بنتی ہے۔ اس طرح الفاظ کو یاد رکھنا، یا لوگوں کو متاثر کرنا، چونکنا، آسان تھا۔ بعد میں یہی کلچر کمرشل ازم کے ذریعے فلم سنگیت سے جڑ گیا. یہ شاعری کا کمرشل پہلو تھا اور جس طرح ہر کمرشل شے کی عمر کم ہوتی ہے اس قسم کی شاعری کی بھی عمر کم تھی۔البتہ آعلیٰ پاۓ کی شاعری بھی گائی گئی لیکن وہ اپنے گاۓ جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تفکر اور احساس کی وجہ سے زندہ رہی، جیسے خواجہ فرید۔ گیت، موسیقی اور شاعری کو عہد قدیم میں ایک طرح سے لینا بلکل ایسا ہی تھا جیسے شروع میں ، سائنس، کوزمولوجی، بیالوجی وغیرہ کو "فلسفہ" ہی ٹریٹ کرتا تھا۔ بعد میں جدید دور میں نئی "کلاسیفیکیشن" ہوئی اور سائنس فلسفہ وغیرہ کی تمام تر شاخیں متعین کی گئیں۔ اسی طرح ادب کی بھی کلاسیفیکیشن کی گئی۔ اس طرح کی شاعری کو 'لیرکس' کہنا زیادہ مناسب ہو گا یا جیسے ورڈزوورتھ نے metrical composition کہا۔ آج پوری دنیا میں گیت، سنگیت سے جڑی شاعری کو سب سے کم تر خیال کیا جاتا ہے جبکہ احساس، تفکر اور نۓ اسلوب کی شاعری کو ہی آعلیٰ پاۓ کی شاعری مانا جاتا ہے۔
کچھ لوگ چاہتے ہیں شاعر پہلے دھن بناۓ پھر شاعری لکھے۔ یعنی شاعر کو موسیقار ہونا چاہیے۔ حالانکہ شاعر پہ شاعری اترتی ہے نہ کہ موسیقی۔ یہ موسیقار کا کام ہے وہ موسیقی دے۔ پھر اس کا یہ کام نہیں کہ وہ شاعر کے خیالات کو موسیقی دے بلکہ وہ اس موسیقی کو پکڑے جو اس کی روح پہ اتری ہے۔ ایک شاعر گلوکار کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ کتنے تاریخ میں گلوکار ہیں جن کے نام آج موجود ہیں۔ جبکہ قریب تمام زبانوں کے شاعروں کے کلام اور نام محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ جگجیت غالب کی غزل نہ بھی گاتا تو شاعری معرض وجود میں آ چکی تھی اسی طرح ایذرا پونڈ، ٹی ایس ایلیٹ، کو اپنے تفکرات کے لئے نہ موسیقی کی ضرورت ہے نہ گائیک کی۔
شاعری کی عمر گیت سے زیادہ ہے۔ہمارے پاس عہد قدیم کی شاعری تمام تر زبانوں میں موجود ہے، محفوظ ہے۔ گیت چند عشروں بعد ناپید ہو جاتا ہے۔ پہلے اس کے سننے والے نہیں رہتے یا ٹرینڈ بدل جاتے ہیں۔ جیسے ستر اسی کی دہائی کے اکثر گیتوں کے یہ نسل نام تک بھول چکی ہے۔ شاعری کیوں کہ محض ایک گیت نہیں ہوتا گو کہ اکثر شاعری گائی بھی جا سکتی ہے بلکہ شاعری ایک روح سے گفتگو یا زندگی کا تنقیدی و جمالیاتی واردات ہے۔پھر شاعری ایک کیفیت اور ڈرامہ لئے ہوتی ہے اس لئے اچھے ٹکڑے بعض دفعہ ہزاروں سال بھی موجود رہتے ہیں اور ان سے پڑھنے والا لطف اندوز ہوتا ہے۔گیت سے زیادہ موسیقی کی عمر ہے وہ بھی شاعری کی طرح لا زوال ہے۔پھر ہمیشگی کسی شے کو نہیں۔
واپس کریں