طاہر راجپوت
کیا ڈاکٹر صرف MBBS ہوتا ہے یا ہونا چاہیے.؟ یہ غلط ہے۔ MBBS بہت مہنگا کر دیا گیا ہے۔ چند ایک سرکاری سیٹوں پہ یہ اتنا محدود ہے کہ 90% نمبر لینے کے باوجود اور مختلف قسم کے انٹری ٹیسٹ کرنے کے باوجود داخلہ نہیں ملتا۔ والدین اولاد کو خوب رگڑا دیتے ہیں۔ وہ بیچارے اور کتنی محنت کریں۔ اکثر بچے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں چند ایک خود کشیاں کر لیتے ہیں۔ لڑکیاں اکثر شادی کے بعد پروفیشن جوائن نہیں کرتیں۔ لڑکوں میں سے بھی کئی پبلک سروس کمیشن میں چلے جاتے ہیں، کچھ انکر بن جاتے ہیں، کچھ باہر چلے جاتے ہیں۔
حکومت نۓ میڈیکل کالجز نہیں بنا رہی اور میرٹ کو سخت کری جا رہی ہے۔ جبکہ روس وغیرہ جو بچے جاتے ہیں وہاں صرف 60% پہ داخلہ مل جاتا ہے۔ صرف پنجاب میں کم سے کم پانچ سو میڈیکل کالجز کی فوری ضرورت ہے۔ ڈاکٹری سائنس کم، ہنر زیادہ ہے۔ یعنی اسے سیکھنا پڑتا ہے۔ برنارڈ شا یہ بات سمجھتا تھا۔ اس لئے اس نے مضمون لکھا Doctors are not men of science یعنی ڈاکٹر سائنس کے بندے نہیں ہیں۔ عرصہ دراز تک سرجری، ختنوں کے کام گاؤں کے نائی کر دیتے تھے۔ بڑے بڑے پھوڑوں کو کٹ لگاتے اوپر پھٹکری پھیرتے لوگ ٹھیک ہو جاتے۔ تب پتہ نہیں لوگوں کو انفیکشن کیوں نہ آتا۔اب بغیر سانس لئے بھی انفیکشن ہو جاتا ہے۔
اب بھی ملک میں لاکھوں عطائ ڈاکٹر یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے۔ اچھا ڈاکٹر اتنی فیس لے لیتا ہے کہ عام آدمی پھر دوائی خریدنے کے قابل نہیں رہتا۔ کسی پرائیویٹ ہسپتال چھ دن داخل ہو جائیں اپنی ساری پنشن دے کر بھی جان نہیں چھوٹے گی۔ سرکاری ہسپتالوں پہ لوڈ اتنا ہے کہ وہ کس کس کو پوچھیں۔؟ اوپر سے گندگی انفیکشن، عملہ نہایت بدتمیز۔ وہاں بھی واقفی سے کچھ کام نکلتا ہے۔ سماج میں بیماری عام۔ مریض بہت زیادہ۔ جائیں تو جائیں کہاں۔؟ اب عطائ کام آتے ہیں یا نیا ٹرینڈ آیا ہے کہ میڈیکل سٹور سے ہی دوائی لے لیتے ہیں۔ لوگ خود اتنے ڈاکٹر ہو گئے ہیں کہ انگلیوں پہ دوایوں کے نام یاد رکھے ہیں اور مفت نسخے بنتے پھرتے ہیں۔
عطائ ڈاکٹر بھی خوب چل رہے ہیں۔ وہ سو روپے سے لے کر پانچ سو تک دوائی دے دیتے ہیں۔ بی پی چیک کر لیتے ہیں، ڈرپ لگا دیتے ہیں، فرسٹ ایڈ کے طور پہ ٹھیک ہیں۔ مریض کے گھر بھی وقت بے وقت چلے جاتے ہیں۔ فوری دستیاب ہیں۔ اکثر مریضوں کو شفا بھی ہو جاتی ہے۔ جس کی اللّه پاک کی طرف سے کم لکھی ہو وہ آگے بھی چلا جاتا ہے۔ تو کیا ہسپتالوں میں لوگ نہیں مرتے۔؟
ایک عطائ کہنے لگا زیادہ تر لوگ ینگ ڈاکٹر مارتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس لائسنس ہے اس لئے انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ہمیں یونہی بدنام کیا جاتا ہے۔ ہم ان سے زیادہ پروفیشنل اور تجربہ کار ہیں۔ مجھے تیس سال ہو گئے ڈاکٹری کرتے۔ بڑے بڑے ڈاکٹر مجھے سرجری کے لئے لے جاتے ہیں۔ میرا ہاتھ بہت اچھا ہے۔ امریکا یورپ میں میڈیکل سے وابستہ لوگوں کو شارٹ کورسز کرواۓ جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عطائیوں کو بھی سال، دو کے کورس کروا کے انھیں لائسنس جاری کرے۔ یہ غریب لوگوں کا سہارا ہیں۔
نوجوان میڈیکل کی طرف آئیں۔ سو طرح کے کورسز ہیں، ان میں سے کوئی کریں۔ ہم کوئی پڑھے لکھے لوگ تھوڑی ہیں۔ کہنے کو ڈگری لئے پھرتے ہیں لیکن اپنا بی پی نہیں چک کر سکتے، گھر کسی کو ڈرپ نہیں لگا سکتے، کسی کو ہارٹ اٹیک آ جاۓ اسے فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتے۔ میٹرک میں طبی تعلیم لازمی ہونی چاہیے۔ ہر کوئی پانچ سات سال اتنا مہنگا MBBS نہیں کر سکتا۔بیمار قوم کو کم سے کم کچھ علاج تو میسر ہو۔ اپنے بچوں کو میڈیکل کی کچھ نہ کچھ تعلیم ضرور دلوائیں۔ کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس سال دو سال بھیجیں۔ بنیادی باتیں سیکھے آپ کو، اس کو، گھر میں کام آئیں گی۔
واپس کریں