دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کی گرفتاری، غیر معمولی صورتحال
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
آخر کار عمران خان کو کل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رینجرز نے گرفتار کر لیا۔ عمران خان پر بہت سے مقدمات تھے لیکن ان کی گرفتاری القادر یونیورسٹی کیس میں ہوئی ۔ اس کیس کا پس منظر یہ ہے کہ ملک ریاض کو زمینوں پہ قبضے کرنے پر سپریم کورٹ نے 400 ارب کا جرمانہ کیا تھا۔ ملک ریاض کے 50 ارب روپے لندن میں پکڑے گۓ۔ برطانیہ نے یہ رقم پاکستانی حکومت کو ٹرانسفر کر دیے جو سرکاری خزانہ میں جانے تھے۔ عمران خان نے کابینہ سے خفیہ طور پر اپروول لے کر وہ 50 ارب سپریم کورٹ میں جرمانہ کی مد میں جمع کروا دیے۔ اس کے بدلے ملک ریاض نے 400 کینال کے رقبہ پر القادر یونیورسٹی بنا کر دی، جس نے روحانیت پر تعلیم دینی تھی۔

عمران خان پاکستان کے اس وقت مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں۔شروع شروع میں عمران خان کو لوگ برینڈ سمجھ کر فالو کر رہے تھے اور یہ زبردست قسم کی ریاستی و عسکری سرپرستی میں ہو رہا تھا۔ ففتھ نسل کے روبوٹس سوشل میڈیا پہ فوج کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اسی طرح کی ایک جنگ طالبان نامی گروہ نے بھی فوج کے لئے لڑی تھی جب فوج نے اپنی پالیسی بدلی وہ اس کے خلاف ہو گۓ ۔
کیوں کہ خان ایک برانڈ کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا اس لئے اس کے ساتھ برانڈڈ لوگ ہر حلقے سے مل گئے۔ برینڈ سے متاثر اپر کلاس اور مڈل کلاس ہوتی ہے سو یہاں خان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔پھر بعد میں حکومت مل گئی اور آئ ایس پی آر کے اس وقت کے ترجمان نے میڈیا سے کہا کہ آپ چھ مہینے صرف ہماری پسند کی خبریں دیں۔ یعنی جھوٹ بولیں۔ یہ کسی بھی ریاستی ادارے کے سربراہ کا سب سے گھٹیا بیان تھا جو ببانگ دہل دیا گیا۔

خان کا دور حکومت بھی معاشی طور پر کامیاب ثابت نہ ہو سکا۔اہم تقریوں پر خان کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف شروع ہو گئے۔ اسے بھی انہی وجوہات پہ نکالا گیا جن وجوہات پہ پہلے نواز شریف کو نکالا جاتا رہا، یعنی وہ تمام معاملات پر کنٹرول چاہتا تھا۔ لیکن نواز محض ایک سیاسی لیڈر تھا، برینڈ نہیں تھا۔اس لئے اس کے حامیوں کی طرف سے اس طرح کا پر تشدد احتجاج نہیں دیکھا گیا۔

نکالے جانے کے باوجود برینڈڈ حضرات کی سر پرستی، حکومت کی ناکامی، بد ترین مہنگائی، روپے کی گراوٹ کی وجہ سے خان کی مقبولیت مزید بڑھی۔ اس پہ بے تحاشا کیس بناۓ گئے، آخر کار کل گرفتار کیا تو آرمی کنٹونمنٹ پر حملے، GHQ جو آرمی کی طاقت کی علامت ہے پر چڑھائ کی گئی، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس نذر آتش کر دیا گیا اور لوٹ مار کی گئی۔ اس طرح کے واقعات اور جگہوں پر بھی رپورٹ ہوے۔ پہلی بار عوامی غیظ و غضب کا منہ ملٹری کی طرف موڑ دیا گیا۔ کسی نے کسی سیاسی لیڈر کو گالی تک نہ دی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے غیر معمولی واقعات ہیں۔

اب عمران خان گرفتار ہیں۔ ہائی کورٹ نے رات گئے ان کی گرفتاری قانونی قرار دی۔ مسلح اداروں نے اب تک نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔البتہ متضاد رپورٹ آ رہی ہیں کہ کہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فائرنگ کی۔ آگے کیا ہونا ہے ابھی صورت حال واضح نہیں۔ ایک بات البتہ یقینی ہے کہ جس "وقار" کی ہمیشہ بات کی جاتی رہی وہ تار تار ہو چکا ہے۔

آگے کیا ہوتا ہے۔تحریک انصاف پر پابندی لگتی ہے یا مزید گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ احتجاج کتنا عرصہ چلتا ہے اور خان کو کب تک قید میں رکھا جاتا ہے۔ یہ سب پہلو اب بہت اہم ہیں۔ پاکستان پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہا ہے اوپر سے مئی کے مہینے میں سیاسی اور موسمی پارہ ہائی ہو چکا ہے۔ احتجاجیوں اور ریاست پاکستان کی طرف سے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوں گے۔ یاد رہے اس موسم میں آگ تیزی سے پھیلتی ہے اور سب کو تیزی سے لپیٹ میں لیتی ہے۔اس جملے میں 'سب' سب سے اہم ہے۔
واپس کریں