دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا زلسنکی دنیا کا امن برباد کرنا چاہتا ہے، زلنسکی کو "مسخرہ" کہنا کہاں تک درست ہے۔؟؟
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
پاکستانی سوشل میڈیا پر یوکرین جنگ کے پس منظر اور عالمی سیاست سے ناواقف ایک طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ "زلنسکی مسخرہ ہے اور دنیا کے امن کو برباد کر رہا ہے۔" لیکن یہ عین وہی بیانیہ ہے جو آج ٹرمپ اور ان کے حامی اپنا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ؛
یوکرین اور روس کا تنازعہ 2014 میں شروع ہوا، جب روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا۔
یوکرین میں 2019 میں زلنسکی صدر بنے، یعنی وہ اس تنازعے کے آغاز میں شامل نہیں تھے۔
صدر بننے کے بعد 2019 میں زلنسکی نے روس سے مذاکرات کیے اور دسمبر 2019 میں پیرس میں روس، یوکرین، فرانس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کا مقصد ڈونباس کے علاقے میں جنگ بندی کرنا تھا۔
مگر روس نے 24 فروری 2022 کو دوبارہ یوکرین پر حملہ کر دیا، جس کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے اور اس کی حکومت روس مخالف ہے۔
حالیہ امریکی اور یوکرین تنازعہ درحقیقت ٹرمپ کی چپقلش زیادہ معلوم ہوتی ہے، کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر اس کی توثیق نہیں کر رہی۔ پچھلے پانچ سے چھ سال کے دوران، امریکی پالیسی یوکرین کو فوجی اور مالی امداد فراہم کرنے پر مبنی رہی، جس کا مقصد روس کے اثر و رسوخ کو کمزور کرنا تھا۔
مگر اب، ٹرمپ انتظامیہ نے اچانک موقف بدل لیا ہے۔ یوکرین کو نہ صرف امداد سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ اس پر روس کے ساتھ صلح کرنے کا دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔
یوکرین کا مؤقف کیوں مضبوط ہے۔
زلنسکی کہہ رہے ہیں کہ اگر امریکہ روس کے خلاف سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دیتا، تو پھر یوکرین یورپ کے ساتھ مل کر جنگ جاری رکھے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں زلنسکی کہاں غلط ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کو اپنی شرائط پر جھکانے کی کوشش کر رہی ہے۔یوکرین اسلحہ اور مدد کے بدلے امریکہ کی ڈیل قبول کرنے پر تیار ہے، لیکن سیکیورٹی گارنٹی مانگ رہا ہے۔
امریکہ خود یوکرین کو کہہ رہا ہے کہ یہ ضمانت یورپ سے لو، یعنی وہ خود کو مکمل طور پر جنگ سے الگ کرنا چاہتا ہے۔تو، زلنسکی "مسخرہ" ہے یا ایک سخت مزاحمت کار؟
جو لوگ بغیر سیاق و سباق کے زلنسکی کو "مسخرہ" کہہ رہے ہیں، وہ یا تو حقیقت سے ناواقف ہیں، یا وہی پروپیگنڈا دہرا رہے ہیں جو ٹرمپ اور ان کے حامی کر رہے ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو ایک مشکل جنگ میں جھونکنے والا خود امریکہ تھا، اور اب جب یوکرین امریکی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر رہا ہے، تو ٹرمپ اس پر الزام لگا رہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ امریکی مفادات بدل چکے ہیں، مگر زلنسکی وہی کر رہا ہے جو کسی بھی ملک کا لیڈر کرے گا یعنی اپنے ملک کے مستقبل کی ضمانت مانگے گا۔ اگر امریکہ یہ ضمانت دیے بغیر صرف یوکرین کی قیمتی معدنیات چاہتا ہے تو اسے ہم که سکتے ہیں؛
میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو . . .
صدر زیلنسکی اچھا کھیل گئے
بظاہر صدر ولادیمیر زلنسکی کے حالیہ دورے کو ناکام تصور کیا جا رہا ہے، اور اس دوران انہیں کچھ سفارتی تذلیل بھی برداشت کرنا پڑی۔ لیکن حقیقت میں، زلنسکی نے امریکی سخت شرائط پر ڈیل نہ کر کے ایک چالاک سیاسی چال چلی، جس کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ شدید ناراض دکھائی دی۔
ٹرمپ اور ان کی ٹیم اس ڈیل کو ایک آسان معاملہ سمجھ رہے تھے، جسے وہ اپنی انتخابی مہم میں بھرپور کیش کروا سکتے تھے۔ لیکن زلنسکی نے امریکی سیکیورٹی ضمانت کے بغیر کسی بھی معاہدے کو مسترد کر کے خود کو یورپ اور برطانیہ کے قریب کر لیا ہے۔
زیلنسکی کے اس فیصلے کے بعد امریکہ کے لیے آپشنز محدود ہو گئے ہیں۔ اگر ٹرمپ یورپ کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہ آسان نہیں ہوگا، کیونکہ یوکرین نے یورپ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ، جو امن اور "ڈیل ماسٹر" بننے کی ٹرافی حاصل کرنا چاہتے تھے، اب مشکل صورتحال میں ہیں۔ اگر یوکرین امریکی دباؤ میں نہیں آ رہا، تو پھر ٹرمپ روس کے ساتھ کس یقین دہانی پر تعلقات بہتر کریں گے؟
اب اس کھیل میں ایک اور دلچسپ موڑ آ سکتا ہے—یورپ ایک علیحدہ بلاک بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں فرانس اور برطانیہ قیادت کریں گے۔ اس گروپ کے چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہونے کا امکان ہے، جو امریکہ کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
بازی ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن فی الحال زلنسکی امریکی دباؤ جھیل کر ایک مضبوط پوزیشن حاصل کر چکے ہیں۔
واپس کریں