طاہر راجپوت
جس طرح ایک انسان، ایک پودے کی گروتھ ہوتی ہے۔ یعنی پیدائش سے لے کر نوجوانی تک، پھر جوانی، درمیانی عمر اور بڑھاپا۔ یہ تو جسمانی نشونما ہے۔ ایسے ہی جذباتی اور ذہنی نشونما بھی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کے جسم کی گروتھ تو جاری رہتی ہے لیکن ذہنی نشونما ایک خاص مدت کے بعد رک جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک آرٹسٹ کی بھی گروتھ ہوتی ہے اور ایک فن پارے کی بھی۔ وہ نشونما بھی ہر اعتبار سے کامل ہونی چاہیے۔
پروپیگنڈا لٹریچر ایسا ہی ہے جیسے کسی بچے کو صرف "مائی بیسٹ فرینڈ" مضمون ہی یاد تھا۔ اب اسے کسی نے بتایا تھا کہ "مائی بیسٹ ٹیچر" یا اس سے ملتا جلتا کوئی اور مضمون آے تو اسے ہی تھوڑا توڑ مروڑ کر سنا دینا۔ استاد کھچرا تھا، اس نے کہا؛ "ہوائی جہاز پہ مضمون سناؤ"۔؟
شاگرد میں نے ایک دفعہ ہوائی جہاز کا سفر کیا۔ جہاز کھیتوں کے اوپر سے اڑ رہا تھا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے دیکھا تو نیچے اسلم کھیل رہا تھا۔میرے بہت سے دوست ہیں لیکن اسلم میرا بہترین دوست ہے۔ ہم اکٹھے اسکول جاتے ہیں وغیرہ ۔۔۔۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پروپیگنڈا لٹریچر کی پہچان یہ ہے وہ ایسے لکھا جاتا ہے۔ رائیٹر جو مرضی بات کرے، جہاں سے مرضی کہانی شروع کرے، آخر میں 'مائی بیسٹ فرینڈ' والا حساب ہی کرتا ہے۔ راجہ گدھ، شہاب نامہ وغیرہ میں یہی صورت حال ہے۔
کمرشل شاعر و ادیب کو کیوں کہ پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس لئے وہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو جاتا ہے۔ اس کی کتابیں گھر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ خود وہ ہر دوسری تقریب میں موجود ہوتا ہے۔ لوگ اس پہ بات کرنا شروع کرتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے وہ برینڈ بن جاتا ہے۔ جب اس کی ایک شاعر اور ادیب کی متھ بن جاتی ہے تو وہ ایک مقدس گاۓ بن جاتا ہے۔ لوگ جب ایک بار کسی چیز پر یقین کر لیں پھر خود اس کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس لئے بہت کم اسے تنقیدی نظر سے پڑھا جاتا ہے۔
اس قسم کی تحریروں میں جب رائیٹر کو ادب میں تبلیغ، وعظ، نصیحت کا دورہ پڑتا ہے تب تحریر کمپرومایزڈ ہو جاتی ہے۔ ایسے ادب کو میں 'پروپیگنڈا لٹریچر' کہتا ہوں۔ کمرشل ادب اصل میں یہی پروپیگنڈا لٹریچر' ہوتا ہے، جسے ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اسے لوگوں کی ذہن سازی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے شاعر، ادیب، صحافی، فلم سٹارز دیکھتے دیکھتے مقبول ہو جاتے ہیں۔یہ شاعر و ادیب کا سر درد نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ کیسے ہیں اور انہیں کیسا ہونا چاہیے۔
ریڈر اور رائیٹر کی بتدریج نشونما ہونی چاہیے۔ جیسے راجہ گدھ ناول مجھے دور جاہلیت میں بہت پسند تھا۔ ویسے میں نے اس گروپ؛ بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کو مکمل پڑھا ہوا ہے۔ شہاب ان میں سے بہتر ادیب ہیں۔راجہ گدھ اب دوبارہ پڑھوں تو شائد اتنا متاثر نہ کر سکے۔ پہلے تو اس کا فلسفہ بلکل بودا ہے، دوسرا مجھے انداز تحریر اب پسند نہیں آے گا۔ انداز تحریر مصنوعی لگے گا، کیوں کہ میں ان کی تحریروں کے کبھی کبھی فیس بک پہ ٹکڑے دیکھتا رہتا ہوں۔ نثر جاندار نہیں لگتی۔ جاندار نثر کے لئے محض لفاظی یا جذباتیت کافی نہیں بلکہ انسانی مشاہدہ اور روح کی سچائی سے نکلی تحریر ضروری ہے۔
واپس کریں