طاہر راجپوت
عمران خان کو جب اقتدار سے ہٹایا گیا انھیں سول اور عسکری ایسٹیبلشمنٹ کی مسلسل حمایت حاصل رہی۔ اس وجہ سے وہ ہٹنے کے بعد بھی میڈیا، سوشل میڈیا،جلسوں وغیرہ میں مکمل پروٹوکول کے ساتھ چھاے رہے اور اپنے "بیانیہ" کو پروموٹ کرتے رہے۔ جبک جب نواز شریف کو نا اہل کیا گیا تھا انہیں ہر جگہ سے مکمل بلیک اوٹ کر دیا گیا تھا۔ اس لئے اب تک ان کی واپسی نہیں ہوئی، نہ ڈار کو آنے کی اجازت ملی، نہ مریم باہر جا سکیں، کیوں کہ معافی نہیں ملی تھی۔ عمران حکومت کو اس لئے وقفہ دیا گیا کہ اس کی ملکی اور عالمی سطح پر کریڈیبلٹی کھو چکی تھی اور ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مشکل فیصلے جیسے پیٹرول پہ سبسڈی ختم کرنا اور مہنگائی کا سیلاب ان سے نہیں کروایا گیا۔ غلاموں کی فوج کو باندھ کر اور ہنی بیٹ کے ساتھ پہلی صف میں پھینکا گیا۔ صاف ظاہر ہے ان حالات میں ان کا پتہ صاف ہونا تھا۔یہ جنگی تکنیک ہے کہ اپنے اہم حصوں کو بچانے کے لئے قیدیوں، غلاموں، عورتوں کو آگے پھینک دیتے تھے۔
جب ان سے مشکل فیصلے کروا لئے تو ٹیسٹ کیس کے طور پہ 'ضمنیاں' بنا کر الیکشن جلدی جلدی کرواۓ گئے، حالانکہ کوئی بھی کورٹ اس کو روک سکتی تھی، لیکن جو ایک افسر نہیں تعینات کر سکتے وہ کیا کر سکتے ہیں۔؟ مجھے یہ سب اگلے ایک سال میں صدارتی نظام کی طرف جاتا لگ رہا ہے۔ زرداری سیف سیف کھیلا لیکن لونگ ٹرم ان کا بھی نشان مٹا دیا جاۓ گا۔ ایک اننگز مکمل ہوئی۔
ن لیگ اپنے دور اقتدار میں انٹیلیکچوئل لوگوں کو آگے لے کر نہیں آئ۔ کوئی شاعر، کوئی ماہر تعلیم، سائنسدان میں نے ان کے ساتھ نہیں دیکھا۔ایسے لوگ دماغ ہوتے ہیں۔ یہ سب روایتی سیاستدان تھے۔ ان میں سے اکثر جدید موبائل فون نہیں چلا سکتے۔ پاکستان بدل رہا ہے۔ 2000 کے بعد پیدا ہونے والے نوجوان سوشل میڈیا پہ جاگتے اور سوتے ہیں۔ لاکھوں ووٹ نۓ رجسٹر ہو گئے ہیں۔ یہ ایسی نسل ہے جو ہر نئی نسل کی طرح تبدیلی چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے تحریک انصاف نے اپنے ناکام چہرے کو سامنے نہیں آنے دیا۔ ان کا ووٹ انٹیکٹ رہا۔ عمران خان کے ساتھ نوجوان جذباتی وابستگی رکھتے ہیں کیوں کہ وہ میڈیا کی فضا میں پلے ہیں۔ میں نے ان نوجوانوں کو بہت متحرک دیکھا ہے۔ وہ نہ صرف خود ووٹ ڈالنے جاتے ہیں بلکہ دوستوں کو بھی لے کر جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی دوسری کامیابی ہے ان نے سیاست میں انٹرٹینمنٹ کا ٹچ دیا اور بھی بہت ٹچ ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے موافق جا رہا ہے۔ کچھ اختلافات ان کے طاقت ور حلقوں سے ضرور تھے لیکن ان کے حمایتی وہاں اب بھی زیادہ ہیں۔دو تین ماہ میں پیٹرول کی قیمت بہت بڑھی جس سے مہنگائی بہت ہو گئی۔اس کا نقصان ن لیگ کو ہونا تھا۔ پی پی کا کوئی سٹیک نہیں تھا فل حال وہ اپنے مورچے میں محفوظ ہیں لیکن آگے جا کر نہیں ۔ صرف اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال آنے والے مہینوں میں ملک پہ کس طرح مثبت اثرات ڈالتی ہے کیوں کہ ہمارا اصل مسلہ معیشت ہے۔
واپس کریں