دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیمینزم کا دائرہ کار
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
فیمینزم کے حوالے سے ہمارے ہاں کافی غلط فہمیاں ہیں۔ جب بھی مارچ کا مہینہ آتا ہے تو عورت مارچ کو لے کر اس کی حمایت اور دشمنی میں سبھی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ فیمینزم کو ہمارے ہاں مدر پدر فلسفہ سمجھا جاتا ہے اور جیسے کہ ہر مغربی فکر اور تہوار کو ہم سیکس، بے راہ روی یا مذہب کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں، فیمینزم کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔جہاں تک میں فیمینزم کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مردوں نے ہر سماج میں زیادہ طاقت حاصل کر لی اور اپنے اختیارات اور کردار کو بہت بڑھا لیا۔ جب ایک شے جگہ لیتی ہے تو دوسری کو جگہ چھوڑنی پڑتی ہے۔ پس عورت کے لئے سپیس کم ہوتی گئی اور وہ گھر تک محدود ہو گئی یا کر دی گئی۔ مرد ضرورت سے زیادہ مرد بن گئے اور عورت ضرورت سے زیادہ نسوانی ہو گئی۔ مردوں نے اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے عورتوں کے متعلق خود ساختہ نظریے مشہور کر دیے؛ جیسے صنف نازک، کم عقل، سوشل ذمہ داری، جنگ، کھیل کے لئے ان فٹ اور عورتوں کو بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھ لیا گیا۔

عورت اور مرد کے رول میں جو توازن تھا وہ بری طرح مسخ ہوا۔ یہاں تک کے عورت کے لئے سپوک مین کا درجہ بھی مرد نے خود رکھا۔ اب عورتوں کے بارے میں ہم جتنا جانتے ہیں وہ مردوں کی ہی definition ہے۔
وہ کہتے ہیں نہ کہ اکثر لوگ سچ نہیں جانتے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ نہیں جانتے۔ پس عورت پہ یہ چیز لاگو ہوتی ہے۔اب فیمینزم کیا چاہتی ہے کہ مرد اپنے اختیارات چھوڑے اور عورت کے لئے decide نہ کرے۔ اگر عورت نے جاب کرنی ہے، گھر رہنا ہے، کونسا شعبہ اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک عورت کا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے۔ مرد کہتا ہے کہ میں یہ کرتا ہوں، وہ کرتا ہوں، تو وہ نہ کرے، بلکہ خود سے بوجھ کم کرے۔ اب یہاں مسلہ آتا ہے کہ جب عورت خود مختار ہو گی تو وہ آزاد بھی ہو گی۔ یہ مردانہ نفسیات کو کسی طرح منظور نہیں۔ ایک آزاد عورت سے زیادہ خطرناک شے وہ کسی کو نہیں سمجھتا۔ وہ اس سے خوف زدہ ہے۔ کیوں کہ صدیوں کی اجارہ داری سے اب عورت کو وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔


اب یہ کہنا مرد پمپرز بھی بدل رہے ہیں، بچے بھی اٹھاے شادیوں پہ پھرتے ہیں، عورت کے شاپنگ بیگ لئے بھی شاپنگ سینٹر کے باہر بیٹھے ہیں، تو یہ احمق خیالی ہے۔ کیا عورت خود بازار جا رہی ہے۔؟ کیا وہ خود ڈرائیو کر رہی ہے۔؟ کیا وہ خود اپنے شعبے اپنے ساتھی کا انتخاب کر رہی ہے۔؟ کیا وہ اپنی مرضی سے آ جا سکتی ہے۔؟ آدھی مردانہ آبادی تو عورتوں کو اسکول، کالج، آفس چھوڑنے پہ جتی ہے۔ عورت کی خود مختاری اس کی decision making سے جڑی ہے۔ اس خوف سے ڈر کر مرد پھر اس کو واپس بل میں گھسیڑتا ہے اور خود کولہو کا بیل بن جاتا ہے۔
واپس کریں