دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“ شب خون “
طاہر سواتی
طاہر سواتی
کوئی ۲۵ سال قبل آج ہی کے دن سیاست زدہ جرنیلوں نے رات کی تاریکی میں آئین پر شب خون مار کر دوتہائی اکثریت والے وزیر اعظم کو غیر آئینی طور پر برطرف کرکے گرفتار کیا۔ اس وقت تو نعرہ کرپشن ، اقربا پروری کے خاتمے اور قومی سلامتی کے بچاؤ کا لگایا لیکن دراصل عالمی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اشارہ مل چکا تھا،بدقسمت ملک نے ایک بار پھر امریکی مفادات کے لئے فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کرنا تھا ۔یہی کچھ کوئی ۱۹۷۷ میں ہوا تھا ۔سوائے اے این پی کے کسی جماعت نے اس غیر آئینی اقدام کی مذمت نہیں کی ۔
جماعت اسلامی سے لیکر تحریک انصاف تک جتنی سارے انقلابی جماعتیں نظر آرہی ہیں ان سب نے مشرف کے مارشل لا کو خوش آمدید کہا ۔
بلکہ حریت لیڈر عمران احمد خان نیازی تو جنرل مشرف کے لیے ریفرنڈم مہم چلا رہا تھا۔
جو عدالتیں آج خطوط لکھ کر ایجنسیوں کے کردار کو اجاگر کرنے کے ڈرامے کررہی ہیں ان سب نے اس آمریت کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ آمر مشرف کو آئین میں ہر قسم کی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا ۔
بلکہ سب سے بڑے انقلابی جج من اللہ نے تو وزرات کی قلم دان بھی سنبھال لی تھی ۔
بعد میں امام سیاست مولانا فضل الرحمان اور منافقت سیاست جماعت اسلامی نے ملکر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے باوردی جنرل کو صدر پاکستان کے عہدے پر فائز کروایا اور نہ صرف اس کے تمام غیر آئینی اقدمات کو آئینی چھتری فراہم کی بلکہ ساتھ ۵۸ بی کے ذریعے اسے اسمبلی برخواست کرنے کا اختیار بھی دے دیا ۔
آج سراج الحق، سینٹر مشتاق اور حافظ نعیم سے لیکر غفور حیدری اور حافظ حمد اللہ تک سب ہمیں بتا رہے ہیں کہ ملک میں آمریت ہے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا گلہ دبایا جارہا ہے۔
خیرُ جنرل نے ۳۵ ارب ڈالرُ کے لیے امریکی جنگ لڑی اور ملک کو دھشت گردی کی آگ اورُ لوڈشیڈنگ کی تاریکیوں میں چھوڑ کر چلا گیا۔ ان آسیبوں سے پھرُ اسی غدار اور چور نواز شریف نے نجات دی لیکن کاکول کے لونڈوں کوُآرام کہاں۔
۳۵ پنکچر اور ڈان لیکس سے لیکر پانامے تک ہر حربہ نواز شریف کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کیا ۔
جنرل پاشا اور ظہیرُ السلام سے لیکُر باجوہ ، غفوراور فیض تک سب نے ایک اناڑی کو لانے کے لیے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
اور جب تجربہ ناکام ہوا۔ ملک دیوالیہ پن کے کنارے پہنچ گیا تو سارا ملبہ ایک بارُ پھر سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر ڈال کر ایک نئی مہم پر چل پڑے ۔
تاریخ کا سوال یہ ہے کہ کیا کاکولی لونڈوں کے سیاست کا کیڑا مرچکا ہے اور آئندہ کے لئے اس قسم کی مہم جوئی سے توبہ تائب ہوگئے ہیں ؟
واپس کریں