دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“ کیا سوال گستاخی ہے؟؟”
طاہر سواتی
طاہر سواتی
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: “یا رسول اللہ! ﷺ مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے! “رحمت اللعالمین نے اس پر فتویٰ نہیں لگایا کہ یہ مرتد ہوگیا ہے، میری تعلیمات کے برعکس ایک حرامُ چیز کی اجازت مانگ رہا ہے۔ اسے پکڑو ، یا یہ اپنے سوال پر توبہ کرے اور معافی مانگے یا اس پر حد جاری کردی جائے ۔ بلکہ جب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، تو نبی رحمت ﷺ نے اسے فرمایا: میرے قریب آجاؤ! وہ نبی ﷺ کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟
اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں! نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!
نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر نبی ﷺ نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ: ”اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔(مسند احمد)چودہ سو سال بعد اسی دین کے ایک مولوی سے ایک لڑکی نے سوال کیا کہ جس معاشرے میں میں رہتی ہوں وہ سخت مذہبی ھے دعوت و تبلیغ کا کام عروج پہ ھے عورت گھر سے باہر نہیں کل سکتی ، ہر شخص مزھبی ھے لیکن اس تبلیغ کا کوئی اثر نہیں اور بچوں سے جنسی ذیادہ عام چلن ھے ، نشہ عام ھے آخرُ اسکی کیا وجہ ھے؟
مولوی اس سوال پر بھڑک اٹھے ۔ سخت بد کلامی کرتے ہوئے بچی سے کہا کہ آپکا سوال غلط ھے ، ایک اسلامی معاشرے میں بچوں سے زیادتی نہیں ہوسکتی آپ پورے معاشرے پہ الزام لگا رہی ہیں اور اگر اللہ کے سامنے یہ سوال کیا تو آپ پھنس جائیں گی-آپ کے سوال میں تضاد ہے اس پر آپ معافی مانگیں ۔ حالانکہ لڑکی نے معاشرے کے ایک تضاد پر ہی سوال اٹھایا تھا۔ آگر معاشرے کا تضاد قابل جرم نہیں تو اس تضاد پر سوال کیوں قابل گرفت ہے۔یہ وہ ذاکر نامی ملا ہے جو اپنے آپ کو ڈاکٹر کہتا ہے ، تھری پیس پہنتا ہے ، اس کا دعویٰ ہے کہ میں مجدد ہوں ، جدید تعلیم یافتہ اذہان کے اشکالات دور کررہا ہوں ان کو دین سے ہمکنار کررہا ہوں ۔لیکن درحقیقت یہ جدید دور کا نسلی جاہل ہے۔ یہ ۲۱ ویں صدی میں بھی اس ابن تیمیہ کے پرتششد اور تنگ نظر تعلیمات کا شکار ہیں جس کے ہاں فلسفہ کفر تھا۔ابھی چند ماہ قبل اسی مسلک کا مولوی ابتسام الٰہی ظہیر ایک مولوی کے بچے سے ذیادتی کے کیس میں معافی اور صلح صفائی کروا چکے ہیں تاکہ علما کی بدنامی نہ ہو۔ ان زومبیز مولویوں کے نزدیک برائی جرم نہیں لیکن اس پر بات کرناجرمُ ہے کہ اس سے ان کے قباوں پر دآغ پڑتے ہیں ۔
واپس کریں