دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مولانا کیوں بدل گئے
طاہر سواتی
طاہر سواتی
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نیازی سرکار کی رخصتی کی تمنا سب سے زیادہ مولانا کے دل میں مچل رہی تھی ۔اس کی خاطر ۲۰۱۹ میں اسٹبلشمنٹ کی بی ٹیم کے ہدایت پر آزادی مارچ اور دھرنا بھی دیا تھا۔کیونکہ جنرل سرفراز کی خواہش تھی کہ باجوہ جائے اور وہ چیف بنے ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسے تنہا چھوڑ دیا اس لئے مارچ ناکام ہوا یہ غلط ہے ۔کیونکہ یہ دھرنا اور مارچ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بجائے جن کے کہنے پر شروع کیا تھا وہ پیچھے ہٹ گئے تھے ۔بعد میں پڈم بنی ، مولانا کی پارٹی تیسری پوزیشن پر تھی لیکن یہ خود اس کے صدر بنے ۔ آخر کار زرداری کی کوششوں سے نیازی سے جان چھوٹی اور مولانا نے سب سے زیادہ حصہ وصول کیا ۔اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بے وفائی سے نالاں تھے تو عہدے نہ لیتے ۔
انتخاب کے التوی کی سب سے زیادہ کوشش مولانا نے کی لیکن آخر کار جب الیکشن کا موسم آیا تو مولانا کو اپنے علاقے میں گنڈا پوری ط البان کا سمانا کرنا پڑا ۔ مولانا نے اس مسئلے میں بھی ایک تیر سے دو شکار کھیلے۔
افگانستان کے ساتھ حالات کو معمول پر لانے کے لئے ثالثی کی آفر کی۔ اس وقت بارڈر پر کشیدگی تھی یوں ایک جانب حافظ پر احسان کیا اور دوسری جانب وہاں جاکر اپنی سیکیورٹی کی ضمانت مانگی ۔ دو دورے لگاتار کئے وہاں طالبوں نے اس کی فیض سے بات کروادی ۔
یاد رہے فیض دو افغان سمیں استعمال کرتاتھا ۔
فیض نے اسے آفر کی کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ جلد یہ حکومت ختم ہوگی ہم آپ کو ایڈجسٹ کرلیں گے ۔ کابل کے طالب ضمانتی بن گئے۔
لیکن مولانا کچی گولی کھیلنے والے نہیں تھے ۔
واپسی پر مولانا نے حافظ سے ملاقات کرکے اپنے دورے کی رپورٹ اور سفارشات پیش کیں اور ساتھ ہی انتخابات میں چالیس سیٹوں کا مطالبہ کردیا ۔
حافظ نے کہا جناب ہم غیر جاندار ہیں کچھ کر نہیں سکتے ۔
فیض نے انتخابات میں جھرلو پھیر لیا اور مولانا کو حسب خواہش کامیابی نہ مل سکی تو مولانا تپ گئے ۔
ایلکشن کے فوری بعد شہباز شریف سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں حکومت سازی کے لئے پیش رفت نہ ہوسکی ،
اور ڈیڈ لاک آگیا تو چین نے اسٹبلشمنٹ کی مدد سے نواز شریف کو حکومت سازی کے لئے راضی کرلیا ۔
ایسے میں شہباز شریف کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ میں اس صورت میں حکومت لوں گا اگر مجھے اکیلے چلانے دیا جائے ، کیونکہ پڈم کی حکومت میں سب نے مرضی کی وزارتیں لیں اور پھر ذمہ داری لینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔
یوں شہباز شریف نہ مولانا کے مطالبے پر اپوزیشن میں بیٹھے اور نہ ہی اسے کابینہ میں شامل کیا ۔
اس کے بعد مولانا کے پاس اصولی اختلاف کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔
فیض نے پھر نیازی سے مشورے کے بعد اسد قیصر وغیرہ کو ملاقات کے لئے بھیجا اور یوں نئی محبت کی شروعات ہو گئی ۔
واپس کریں