طاہر سواتی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہمارا ایک بہت سخت گیر باس تھاجس سے سب تنگ تھے، لیکن اس کے انڈر کام کرنے والے پانچ چھ ڈیپارٹمنٹس میں سے صرف ہمارا دفتر ہی اس کے ناجائز سختی کے خلاف تھا باقی سب بابوں نے نہ صرف سمجھوتہ کیا ہوا بلکہ وہ ہمیں بھی گاہے بگاہے نوکری کرنے کے صحیح طریقے سمجھاتے رہے۔ایک بار ہم تعطیلات سے واپس آئے تو پتہ چلا کہ باس کی پوسٹنگ ہوگئی ہے اور اگلے ہفتے جانے والے ہیں۔
سر شام باس کا معتمد خاص ہمارے پاس تشریف لائے اور روایتی ظہرانے کے بارے ہماری رائے پوچھی۔
ہم نے گزارش کی گو کہ ہمارا وقت اچھا نہیں گزرا لیکن اب وہ ہمارے باس نہیں رہے نہ وہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان لہذا بحیثیت پختون ہم اسے بڑی دھوم دھام سے الوداعی پارٹی دیں گے کہ یہی ہماری روایات ہیں ۔ معتمد خاص خوشی سے اچھل پڑے اور کہا کہ اگر آپ لوگ راضی ہیں تو پھر پارٹی ضرور ہوگی کیونکہ آپ تعداد میں زیادہ ہیںُ اور یوں اگلے دن ظہرانے کا اعلان کردیا ۔بعد میں پتہ چلا کہ وہی پارٹی آرگنائزر تھے اور پریشان تھے کیونکہ باقی ڈیپارٹمنٹس الوداعی پارٹی سے انکار کرچکے تھے اور یہ وہی لوگ تھے جو دوران ملازمت ہر وقت اس کے چکتے رہتے تھے۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے۔
ہمارے ایک دوست کے چاچا بہت سخت گیر اور روایتی قسم کے پٹھان تھے۔ ایک بار اپنی ایک بھینس کو بیچنے کا ارادہ فرمایا۔ پہلی پارٹی ہی خریدنے پر آمادہ ہوگئی کیونکہ قیمت انتہائی مناسب تھی ۔ ایڈوانس رقم دی اور اگلے دن آنے کا وعدہ کیا،لیکن تھوڑی دور جاکر آپس میں مشورہ کیا اور پھر پلٹ کر چاچا کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ کہ کاکا آپ ایک بار پھر گھر میں خواتین کی رائے پوچھ لیں ایسا نہ ہو ہم کل بھینس لینے کے لئے آئیں اور آپ لوگوں کا ارادہ بدل چکا ہو۔
کاکا نے انہیں پاس بلایا اور ایڈوانس رقم ان کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا کہ جاؤ میں بیغیرت نمونوں سے نہ کوئی چیز خریدتا ہوں نہ بیچتا ہوں، تم جیسے دلے خود اس قسم کے معاملات بیویوں کے مرضی کے بغیر طے نہیں کرسکتے اس لئے مجھ پر بھی یہی گماں کیا ہے۔
گزارش یہ ہے کہ جانے والے کی پارٹی میں شرکت نہ کرنا بہادری نہیں کم ظرفی کی نشانی ہے ،کل پانچ کے ٹولے نے بتادیا کہ کیسے کیسے کم ظرف اس مقام تک پہنچا دئیے گئے ہیں ۔ اور یہ کوئی اصولی یا آئینی اختلاف نہیں بلکہ بیگمات کے کرش کا ٹکراؤ ہے۔
جو بیغیرت اپنے بیگمات کی مرضی کے بغیر فیصلے نہیں لکھ سکتے ہم ان سے آئین کی تحفظ کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔
واپس کریں